جنگ گروپ نے سوئس سیکرٹس میں شامل پاکستانیوں کے نام کیوں نہیں چھاپے؟

دنیا بھر میں ایک اور بڑا مالیاتی اسکینڈل منظر عام پر آ گیا، سوئس سیکرٹس میں میر شکیل کے سمدھی ہمایوں اختر اور ان کے خاندان کا نام بھی شامل، ہمایوں اختر کے والد جنرل اختر عبدالرحمان افغان مجاہدین کے نام ملنے والا فنڈ بیٹوں کے نام سوئس اکاؤنٹس میں منتقل کرتے رہے

بدنامہ زمانہ پناما لیکس،پیرا ڈائز پیپرز اور پنڈورا پیپرز کے بعد دنیا بھر میں ایک اور بڑا مالیاتی اسکینڈل منظر عام پر آ گیا۔ آرگنائزڈ کرائم اینڈ کرپشن رپورٹنگ پروجیکٹ (او سی سی آر پی) نے سوئٹزرلینڈ کے بینک کریڈٹ سوئس کے  100 ارب ڈالرز سے زائد کے مالیت اکاؤنٹس کی تفصیلات جاری کردیں جنہیں سوئس سیکرٹس کا نام دیا گیا ہے۔

ناقدین نے جنگ گروپ کی جانب سے اپنے اردو اور انگریزی اخبارات میں سوئس سیکرٹس میں شامل پاکستانیوں کے نام نہ چھاپنے پر سوال اٹھادیے

یہ بھی پڑھیے

جیو کے مالک میر شکیل الرحمان پی ٹی آئی رہنما کے سمدھی بن گئے

جنگ کے مالک میر شکیل الرحمان کی ملازمین سے ایک اور وعدہ خلافی

 

souce:bbc

 

او سی سی آر پی کی جانب سے جاری تحقیقاتی رپورٹس میں دنیا بھر کے بدعنوان سیاستدانوں اور آمروں کے سوئس بینک اکاؤنٹس کی تفصیلات شامل ہیں۔ برطانوی نشریاتی ادارے کے مطابق  دی سوئس سیکرٹس میں پاکستان سے اب تک صرف  سابق آئی ایس آئی چیف جنرل اختر عبد الرحمان کا نام ہی سامنے آیا ہے جو سابق صدر جنرل ضیا الحق کے قریبی ساتھی سمجھے جاتے تھے۔

سوئس سیکرٹس
source: twitter

بی بی سی کے مطابق جنرل اختر 1979 سے 1987 تک آئی ایس آئی کے چیف رہے جب پاکستان افغانستان میں امریکا اور دیگر ممالک کی مدد سے روس کے خلاف افغان مجاہدین کی مدد کر رہا تھا۔

اوسی سی آر پی کی رپورٹ میں لکھا گیا ہے کہ اس وقت امریکا اور سعودی عرب کی جانب سے پاکستان کو بھیجی جانے والی رقوم سوئٹزر لینڈ میں سی آئی اے کے اکاؤنٹس میں جمع کی جاتی تھیں۔مبینہ طور پر یہی رقوم بعد میں پاکستان کی آئی ایس آئی کو منتقل کر دی جاتی تھیں جس کے چیف جنرل اختر عبد الرحمان افغان مجاہدین کے لیے اسلحے، ٹریننگ اور رسد کا مبینہ طور پر بندوبست کرتے تھے۔

رپورٹ کے مطابق یہ وہ وقت تھا جب سوئٹزر لینڈ کے کریڈٹ سوئز بینک میں یکم جولائی 1985 کو جنرل اختر عبد الرحمان کے تین بیٹوں  اکبر، غازی اور ہارون کے نام پر مشترکہ اکاؤنٹ کھولا گیا۔رپورٹ کے مطابق اس وقت جنرل اختر کے بیٹوں کی عمر 20 سے 30 سال کے درمیان تھیں۔

رپورٹ کے مطابق سنہ 2003 میں اس اکاؤنٹ میں موجود رقم کی مالیت تقریباً 50لاکھ سوئس فرینکس یا 37لاکھ امریکی ڈالر تھی۔پہلے اکاؤنٹ کے 6ماہ بعد ہی جنوری سنہ 1986 میں جنرل اختر عبد الرحمان کے بیٹے اکبر کے نام پر ایک دوسرا اکاؤنٹ کھولا گیا۔رپورٹ کے مطابق نومبر 2010 میں اس اکاؤنٹ میں موجود رقم کی مالیت 90لاکھ  سوئس فرینکس یا 92لاکھ  امریکی ڈالر سے زیادہ تھی۔

او سی سی آر پی کی رپورٹ میں جنوبی ایشیا کے انٹیلیجنس ذرائع کی مدد سے بتایا گیا ہے کہ اس زمانے میں سوئٹزر لینڈ میں کسی بھی طرح کے خفیہ فنڈز کے لیے اکاؤنٹ کھلوانا بہت آسان تھا۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اسی زمانے یعنی 1985 میں اس وقت کے امریکی صدر رونلڈ ریگن نے افغان جہاد کے لیے مختص فنڈ کے حوالے سے اس خدشے کا اظہار بھی کیا تھا کہ یہ فنڈ کہاں جا رہا ہے۔

او سی سی آر پی رپورٹ کے مطابق جب جنرل اختر عبد الرحمان کے بیٹوں سے رابطہ کیا گیا توان میں سے ایک نے جواب دیا کہ یہ معلومات درست نہیں اور قیاس آرائی پر مبنی ہیں۔

واضح رہے کہ جنرل اختر عبد الرحمان کے بیٹے ہمایوں اختر خان اور ہارون اختر خان پاکستانی کی سیاسی اور کاروباری شخصیت ہیں۔ہمایوں اختر خان چار بار رکن قومی اسمبلی منتخب ہو چکے ہیں اور 2002 سے 2007 تک وہ وفاقی وزیر برائے کامرس بھی رہے۔ آج کل وہ تحریک انصاف سے منسلک ہیں۔

source: twitter

ہمایوں کے بھائی ہارون اختر خان موجودہ سینیٹ کے رکن ہیں اور پاکستان مسلم لیگ نواز سے وابستہ ہیں۔

دوسری جانب سینئر صحافیوں اور تجزیہ کاروں نے جنگ گروپ کے اردو اور انگریزی اخبارات میں سوئس سیکرٹس اسکینڈل میں شامل اختر خاندان کے نام نہ چھاپنے پر سوالات اٹھادیے۔سینئر صحافی اور روزنامہ جنگ کے سابق کالم نویس بلال خان غوری نے ٹوئٹر پر  سوال اٹھایا کہ  جنگ گروپ سوئس اکاؤنٹس رکھنے والے پاکستانیوں  کے نام شائع نہیں کرسکا ۔آپ کے خیال میں اس کی وجہ کیا ہوسکتی ہے؟

بلال خان غوری کے اس سوال پر اکثر صارفین نے ایک ہی جواب دیا کہ  ہمایوں اختر کے سمدھی ہونے کی وکہ سے میر شکیل الرحمان یہ خبر نہیں چھاپ سکے۔
واضح رہے کہ جنگ میڈیا گروپ کے مالک میر شکیل الرحمان کی بیٹی کی شادی گزشتہ سال ہمایوں اختر خان کے بیٹے سے انجام پائی تھی۔

source: google

متعلقہ تحاریر