حکومتی حربہ ناکام ، عدالت نے پیکا ایکٹ کے سیکشن 20 کے تحت گرفتاریوں سے روک دیا

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس  اطہر من اللہ نے پیکا ایکٹ کے خلاف پی ایف یو جے کی درخواست پر اٹارنی جنرل کو معاونت کے لیے طلب کرلیا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے پیکا ایکٹ کے سیکشن 20 کے تحت ایف آئی اے کو گرفتاریوں سے روک دیا اور اٹارنی جنرل کو معاونت کے لئے کل طلب کرلیا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے پری وینشن آف الیکٹرانک کرائمز ایکٹ ( پیکا) ترمیمی آرڈیننس کے خلاف فیڈرل یونین آف جرنلسٹس( پی ایف یو جے) کی درخواست کی سماعت کی۔ چیف جسٹس نے سیکشن 20 کے تحت ایف آئی اے کو گرفتاریوں سے روک دیا۔

یہ بھی پڑھیے

اسلام آباد ہائیکورٹ میں 233 ارب کے مقدمات زیرالتواء ہیں، فواد چوہدری

حکومت نے نئی مردم شماری کے لیے شناختی کارڈ کی شرط ختم کردی

عدالت نے پیکا ایکٹ میں صدارتی آرڈیننس کے ذریعے ترمیم کے خلاف درخواست پر اٹارنی جنرل کو معاونت کے لیے طلب کرتے ہوئے نوٹس جاری کردیا۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ اطہر من نے  ریمارکس دیے ہیں کہ ایف آئی اے پہلے ہی ایس او پیز جمع کرا چکی ہے۔ ایس او پیزکے مطابق سیکشن 20 کے تحت کسی کمپلینٹ پر گرفتاری عمل میں نہ لائی جائے۔

عدالت نے قرار دیا ہے کہ اگر ایس او پیز پر عمل نہ ہوا تو ڈی جی ایف آئی اے اور سیکرٹری داخلہ ذمہ دار ہوں گے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہا کہ عوامی نمائندوں کے لئے ہتک عزت کا قانون ہونا ہی نہیں چاہیے۔ زمبابوے اور یوگنڈا بھی ہتک عزت کو فوجداری قانون سے نکال چکے ہیں۔ درخواست پر سماعت کل تک ملتوی کردی گئی۔

پری وینشن آف الیکٹرانک کرائمز ایکٹ (پیکا) سے متعلق ترمیمی آرڈیننس کو پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (پی ایف یو جے) نے کل اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔

جس میں کہا گیا تھا کہ پیکا ایکٹ 2016 میں ترمیم کرتے ہوئے صدر مملکت نے الیکٹرانک جرائم کی روک تھام کا ترمیمی آرڈیننس 2022 جاری کیا ہے جو بدنیتی پر مبنی ہے کیونکہ حکومت کی طرف سے مطلوبہ شرائط پوری نہیں کی گئیں۔

درخواست میں کہا گیا کہ یہ آرڈیننس 17 فروری کو سینٹ اجلاس ختم ہونے کے دو دن بعد جاری کیا گیا جب کہ قومی اسمبلی کا اجلاس 18 فروری کو بلایا گیا تھا جو اچانک ملتوی کردیا گیا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ میں دائر کی گئی درخواست میں موقف اختیار کیا گیا کہ ملک میں کوئی ایسی ہنگامی صورتحال نہیں تھی کہ اس نوعیت کا آرڈیننس جاری کیا جاتا۔

اس حوالے سے قومی اسمبلی کے اجلاس کے انعقاد کا انتظار کیا جانا چاہیے تھا۔ اظہار رائے کی آزادی صحت مند جمہوریت کے بنیادی اصول میں شامل ہے۔

ایسا ماحول پیدا کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے جہاں عوام کو اپنے دل کی بات کہنے اور رائے کا اظہار کرنے کی آزادی ہو۔

جہاں حقائق عوام کے سامنے پیش کرنے پر سزا دی جائے تو یہ قدم جمہوریت کے خلاف ہے۔

درخواست میں پی ایف یو جے کی جانب سے الیکٹرانک کرائمز ترمیمی آرڈیننس کالعدم قرار دینے کی استدعا کی گئی تھی۔

متعلقہ تحاریر