ٹک ٹاک ویڈیوز کے لیے جنگل کو آگ لگانے کی سزا 10 سال قید ہے، محکمہ وائلڈ لائف

ڈائریکٹر ڈاکٹر طارق بنگش کا کہنا ہے ملک کا بیس فیصد رقبہ جنگلات پر مشتمل ہونا چاہیے جب کہ ہمارے ملک میں بدقسمتی سے صرف 5 فیصد رقبے پر جنگلات ہیں۔

خاتون ٹک ٹاکر کی جانب سے جنگل میں آگ لگا کر ویڈیو بنانے کا واقعہ مارگلہ نیشنل پارک اسلام آباد نہیں بلکہ ہزارہ موٹر وے سے ملحق جنگل کا ہے۔ محکمہ وائلڈ لائف بورڈ کے حکام کا کہنا ہے چند منٹ کی تفریح کے لیے جنگل کو آگ لگانا سنگین جرم ہے ، جنگل کو آگ لگا کر ویڈیوز بنانے والے ایک ٹک ٹاکر کو گرفتار کر لیا گیا جبکہ خاتون ٹک ٹاکر بھی جلد قانون کی گرفت میں ہوگی۔ جنگلات کو نقصان پہنچانے کی سزا دس سال تک قید اور بھاری جرمانہ ہے۔

اسلام آباد وائلڈ لائف مینجمنٹ بورڈ کے ڈائریکٹر ڈاکٹر طارق بنگش کا نیوز 360 کے نمائندے جاوید نور سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ کچھ دنوں سے ٹک ٹاکرز کی ایسی ویڈیوز وائرل ہو رہی ہیں جن ویڈیوز میں پس منظر میں انہوں نے جنگلات کو آگ لگائی ہوئی ہے۔

یہ بھی پڑھیے

مریم نواز اے آر وائی نیوز پر پھٹ پڑیں، بائیکاٹ کا عندیہ

پنجاب پولیس میں بڑے پیمانے پر اکھاڑ پچھاڑ ، متعدد اعلیٰ افسران تبدیل

ان کا کہنا تھاکہ نا صرف جنگلات کو آگ لگانا بلکہ ایسی ویڈیوز کی تشہیر کرنا بھی سنگین ترین اور ناقابل معافی جرم ہے۔ ایسے مزموم اقدامات سے جنگلات سے متعلق منفی سرگرمیوں کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔

ڈاکٹر طارق نے کہا کہ حالیہ دنوں میں دو ٹک ٹاک ویڈیو وائرل ہوئی ہیں جنہیں بنانے والے مجرم سامنے آ چکے ہیں اور ان میں سے ایک کو گرفتار کیا جاچکا ہے جبکہ دوسرے ویڈیو میں دکھائی دینے والی خاتون بھی جلد قانون کی گرفت میں ہوگی۔

ان کا کہنا تھاکہ خاتون ٹک ٹاکر کی جس ویڈیو کی مارگلہ ہلز نیشنل پارک کے جنگلات کے نام سے تشہیر کی جا رہی  ہے ،وہ درحقیقت ہزارہ موٹر وے سے ملحقہ جنگلات میں بنائی گئی ہے جبکہ دوسری ویڈیو کا تعلق ایبٹ آباد کے جنگلات سے ہے جس پر محکمہ جنگلات خیبر پختون خوا کارروائی کر رہا ہے۔ایسے مزموم اقدام کی حوصلہ شکنی کے ساتھ مذمت بھی کرنی چاہیے۔

ڈاکٹر بنگش نے بتایا کہ جنگلات کو نقصان پہنچانے والوں کے لئے سخت سزائیں موجود ہیں۔حالیہ واقعات کے ملزموں کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا۔

ہمارے ملک میں پہلے ہی جنگلات کی تعداد کم ہے  اور جب ہم چند منٹ کی تفریح کے لئے بچے کچے جنگلات کو بھی آگ لگا دیں گے تو ہم آنے والی نسلوں کو کیسا مستقبل دیں گے۔

ان کا کہنا تھاکہ ہمارے پاس 1927 کا انڈین فارسٹ ایکٹ  ہے جسے قیام پاکستان کے بعد  پاکستان فارسٹ ایکٹ میں تبدیل کر دیا تھا۔اس قانون میں جنگلات سے متعلق تمام جرائم کی سزائیں مقرر ہیں۔

اگر کوئی درخت کاٹتا ہے اور جنگلات کو نقصان پہنچاتا ہے تو اسے دس سال تک کی قید کی سزا  جبکہ دس ہزار روپے سے لے کر درختوں کی تعداد کے حساب سے  لا محدود رقم تک جرمانہ کیا جا سکتا ہے۔

اس میں بہت سے جرائم ناقابل ضمانت ہیں۔اس قانون کا سختی سے نفاذ بھی کیا جاتا ہے مگر ہمارے ملک میں غربت کی شرح میں اضافہ ،بڑھتی ہوئی آبادی ،وسائل کی کمی  اور  ماحول ہمارے جنگلات کے تیزی سے بڑھنے میں رکاوٹ ہیں۔ان کا کہنا تھاکہ ماہرین کہتے ہیں کہ کسی بھی ملک کا بیس فیصد رقبہ جنگلات پر مشتمل ہونا چاہیے جب کہ ہمارے ملک میں بدقسمتی سے صرف 5 فیصد رقبے پر جنگلات ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں مارگلہ ہلز نیشنل پارک اور دیگر مقامات پر واقع جنگلات کی آگ سے حفاظت کے لیے ہر برس 15 اپریل سے 15 جولائی تک تین ماہ کے لئے خصوصی مہم چلائی جاتی ہے اور ہمارا عملہ 24 گھنٹے جنگلات کی نگرانی کرتا ہے تاکہ اسے آتشزدگی سے بچایا جا سکے۔ہم مارگلہ نیشنل پارک میں فائر مینجمنٹ پلان کو بہتر طریقے سے نافذ کر رہے ہیں۔

کیپیٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی اور دیگر اداروں سے بھی ہمارا تعاون جاری رہتا ہے وہ نہ صرف عملہ بلکہ آگ بجھانے کے لئے پانی کے ٹینکر بھی فراہم کرتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ گذشتہ کچھ عرصے میں مارگلہ ہلز پر جنگلات میں لگنے والی آگ  پر پندرہ بیس منٹ میں قابو پالیا گیا۔

ڈاکٹر طارق کا کہنا تھاکہ وفاقی اور صوبائی محکمہ جنگلات کی جانب سے درختوں اور جنگلات کو نقصان پہنچانے والے عناصر کے خلاف موثر کارروائی کی جاتی ہے۔قانون کو بھی بہتر بنایا جا رہا ہے۔پہلے جرمانے اور دیگر سزائیں کم تھیں جن میں اضافہ کیا گیا ہے۔

ان کا کہنا تھاکہ آبی وسائل کی قلت بھی جنگلات کی تعداد میں کمی کی وجوہات میں شامل اور نئے جنگلات اگانے میں رکاوٹ ہے۔

ہمارے ملک میں گیس سمیت ایندھن مہنگا ہونے کے سبب لوگوں کی بڑی تعداد کا انحصار لکڑی پر ہے جسے جلا کر وہ کھانا پکاتے ہیں اور اس لکڑی کو فرنیچر اور دیگر مقاصد کے لئے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ خراب معاشی صورتحال اور بڑھتی ہوئی آبادی سے ہمارے جنگلات کو بری طرح نقصان پہنچ رہا ہے۔

ڈاکٹر طارق بنگش ڈائریکٹر وائلڈ لائف بورڈ اسلام آباد کا کہنا تھا کہ جنگلات ہمارے ایکو سسٹم کا اہم حصہ ہیں۔ درخت زمین کو کٹاؤ سے بچاتے ہیں آکسیجن پیدا کرتے ہیں، نہ صرف یہ زمین کے اوپر بلکہ زیر زمین بھی ایکو سسٹم کا اہم حصہ ہیں۔

ان کا کہنا تھاکہ کسی علاقے میں بارش کا زیادہ یا کم ہونا بھی جنگلات پر منحصر ہے۔ درختوں کی ماحولیات کے علاوہ معاشی اور مذہبی افادیت بھی ہے۔جیسے بدھا کے درخت اور کرسمس ٹری وغیرہ۔

متعلقہ تحاریر