آئی ایم ایف کی شرائط اور عمران خان کی ڈیڈ لائن کے بعد اتحادی حکومت مشکل میں

بین الاقوامی مالیاتی ادارے کی سخت شرائط اور حزب اختلاف کی جماعت پی ٹی آئی کی جانب سے انتخابات کی مانگ کے بعد مسلم لیگ (ن) کی زیر قیادت مخلوط حکومت گہری مشکل میں پڑ گئی۔

پاکستان مسلم لیگ نواز (پی ایم ایل ن) کی زیر قیادت مخلوط حکومت ایک طرف بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سے 3 ارب ڈالر کے قرض کی ایک اور قسط کی شرائط ملنے اور دوسری جانب سابق وزیراعظم عمران خان کی جانب سے انتخابات کی مانگ موصول ہونے کے بعد شدید مشکلات کا شکار ہوگئی ہے۔

انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) نے پاکستان کے لیے قرض کی قسط کو پیٹرولیم مصنوعات اور بجلی کی قیمتوں میں اضافے س مشروط کردیا ہے۔ جب کہ وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے اس ساری صورتحال کا ذمہ دار پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی سابقہ ​​حکومت کو ذمہ دار ٹھہرایا۔

یہ بھی پڑھیے

سکھر: دارالامان میں خواتین کے ساتھ جنسی ہراسگی، ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کا نوٹس

تحریک انصاف دور کی انتخابی اصلاحات ختم

مفتاح اسماعیل کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کی حکومت نے پیٹرولیم مصنوعات اور بجلی پر سبسڈی دے کر آئی ایم ایف سے کیے گئے وعدوں کی خلاف ورزی کی۔

اگر حکومت پیٹرولیم مصنوعات اور بجلی کی قیمتوں میں اضافے پر رضامند ہوجاتی ہے تو اس کا مطلب ہے کہ پاکستان آئی ایم ایف کی سخت شرائط قبول کرلے گا۔

پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان دوحہ قطر میں مذاکرات ہوئے۔ آئی ایم ایف نے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کیے بغیر قرض کی اگلی قسط جاری کرنے سے انکار کردیا۔

آئی ایم ایف نے پاکستان کے تمام مطالبات سے اتفاق کیا ہے اور خاص طور پر غربت کے شکار شہریوں کو ریلیف فراہم کرنے کے لیے پاکستانی حکومت کے ایکشن پلان کی حمایت کی ہے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے بغیر آئی ایم ایف سے قرض کی قسط جاری نہیں ہو گی ۔

پاکستانی وفد وزیر اعظم شہباز شریف سے بات چیت کے بعد آئی ایم ایف کو جواب دے گا۔ اس حوالے سے پاکستان کے لیے آئی ایم ایف کے مشن چیف نے اپنا بیان جاری کردیا ہے۔

تازہ انتخابات کی کال

دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان نے آج صبح دھرنا ختم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے اتحادی حکومت کو 6 دن کے اندر الیکشن کی تاریخ دینے اور اسمبلی تحلیل کرنے کا الٹی میٹم دیا تھا۔

جناح ایونیو میں لانگ مارچ کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے چیئرمین تحریک انصاف کا کہنا تھا اگر امپورٹڈ حکومت نے 6 دن کے اندر نئے انتخابات کرانے اور اسمبلی تحلیل کرنے کا اعلان نہ کیا تو اگلی مرتبہ 30 لاکھ لوگ لے کر اسلام آباد پہنچوں گا۔

واضح رہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) نے 2023 میں ہونے والے عام انتخابات کے لیے 47 ارب روپے کی لاگت کا تخمینہ لگایا ہے۔

الیکشن کمیشن آف پاکستان کے مطابق پورے ملک میں ہونے والے انتخابات کی سیکورٹی پر 15 ارب روپے ، بیلٹ پیپر کی چھپائی پر 4.3 ارب روپے، الیکٹرانک ووٹنگ پر 5.6 ارب روپے، پنجاب الیکشن پر ساڑھے 9 ارب روپے ، سندھ الیکشن پر 3.65 ارب روپے ، کے پی کے الیکشن پر 3.95 ارب روپے اور بلوچستان انتخابات پر 1.1 ارب روپے لاگت آئے گی۔

نیوز 360 کے ذرائع کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی چیئرمین نے اسٹیبلشمنٹ کی یقین دہانی پر دھرنا ختم کرنے کا اعلان کیا کیونکہ اسٹیبلشمنٹ کی منظوری سے حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان مذاکرات جاری تھے۔

ذرائع نے مزید بتایا تھا کہ اسٹیبلشمنٹ نے عمران خان کو 26 مارچ سے قبل اسمبلی تحلیل کرنے کا کہا تھا اور اپوزیشن سے کہا تھا کہ وہ تحریک عدم اعتماد واپس لے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ عمران خان اور اپوزیشن نے اسٹیبلشمنٹ کی ثالثی قبول کرنے سے انکار کردیا کیونکہ نہ تو عمران خان اسمبلی تحلیل کرنے کو تیار ہیں اور نہ ہی اپوزیشن تحریک عدم اعتماد واپس لینے کو تیار ہے۔

تجزیہ کاروں کا کہنا تھا کہ اتحادی حکومت ملک میں جاری سیاسی اور معاشی کشمکش میں مبتلا ہو کر گہری مشکلات میں پڑ گئی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت پیٹرولیم مصنوعات اور بجلی کی قیمتوں میں اضافے پر راضی ہو گئی تو اسے مستقبل میں سیاسی محاذ پر بڑے نقصان کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔

دوسری صورت میں، اگر مسلم لیگ (ن) کی حکومت نئے انتخابات کرانے کا انتخاب کرتی ہے تو اس پر 47.4 بلین روپے لاگت آئے گی جو قومی خزانے پر بھاری مالی بوجھ ہوگا۔

متعلقہ تحاریر