احتساب عدالت سے عبدالغنی مجید کے خلاف جعلی بینک اکاونٹس کا 14واں ریفرنس بھی واپس
عدالت نے کہا کہ نئے نیب قانون میں ترمیم کے جعلی بینک اکاؤنٹس ریفرنس کی رقم ریفرنس کے لئے مقررہ 50 کروڑ سے کم ہے جس کے سبب احتساب عدالت اس کی سماعت نہیں ہوسکتی۔
احتساب عدالت اسلام آباد نے نیب قانون میں ترمیم کے حوالے سے عبدالغنی مجید کے خلاف جعلی بینک اکاؤنٹس کا 14واں ریفرنس واپس کردیا۔ عدالت نے کہا کہ نئے نیب قانون میں ترمیم کے جعلی بینک اکاؤنٹس ریفرنس کی رقم ریفرنس کے لئے مقررہ 50 کروڑ سے کم ہے جس کے سبب احتساب عدالت اس کی سماعت نہیں ہوسکتی۔
احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے ریفرنس واپس بھیجنے کا حکم نامہ جاری کیا۔ ریفرنس میں جن افراد کو نامزد کیا گیا تھا ان میں عبدالغنی مجید، محمد شبیر، محمد حنیف، عابد اللہ شاہ اور دیگر ملزمان شامل ہیں۔
یہ بھی پڑھیے
کراچی اور حیدرآباد کے بلدیاتی انتخابات میں دھاندلی: پی پی اور ای سی پی ذمہ دار ہے ، متحدہ کا الزام
تحریک انصاف کا قومی اسمبلی میں واپسی کا اشارہ، منصوبہ کیا ہے؟
احتساب عدالت نے حکم نامے میں کہا کہ ریفرنس کے مطابق بعض افراد نے بےنامی کمپنی کے ذریعے پلاٹ خریدا، جس کی مالیت 24 کروڑ، 69 لاکھ، 60 ہزار روپے تھی، ملزمان نے17 کروڑ30 لاکھ روپے کی جعلی بینک اکاؤنٹس سے ادائیگی کی، جب کہ باقی رقم جو 5 کروڑ 83 لاکھ 25 ہزار روپے بنتی تھی وہ نقد ادا کی گئی۔
احتساب عدالت نے حکم نامے میں مزید کہا کہ اس ریفرنس کی مجموعی رقم 24 کروڑ سے زائد ہے جو 50 کروڑ سے کم ہے، نیب ترمیمی ایکٹ کے تحت 50 کروڑ روپے سے کم مقدمات پر احتساب عدالت کا دائرہ اختیار نہیں بنتا۔
احتساب عدالت نے ریفرنس چیئرمین نیب کو واپس بھیجنے کا حکم دے دیا۔ احتساب عدالتیں اب تک 300 کرپشن ریفرنسز دائرہ اختیار ختم ہونے پرواپس کرچکی ہیں۔
نیب دوسرا ترمیمی بل 2022 گزشتہ برس اگست میں پارلیمنٹ سے منظور ہوا تھا۔ جس کے تحت نیب 50 کروڑ روپے سے کم کے کرپشن کیسز کی تحقیقات نہیں کر سکتا۔ جب کہ احتساب عدالت کے ججز کی تقرری سے متعلق صدر کا اختیار بھی واپس لے لیا گیا ہے۔
نیب ترمیم کے تحت ملزمان کے خلاف تحقیقات کے لیے دیگر کسی سرکاری ایجنسی سے مدد نہیں لی جا سکتی۔
نیب کے ترمیمی قانون کے تحت ملزم کا ٹرائل صرف اس کورٹ میں ہو گا جس کی حدود میں جرم کا ارتکاب کیا گیا ہو۔
نیب تحقیقات مکمل ہونے کے بعد ریفرنس دائر کرے گا۔ پلی بارگین کے تحت رقم واپسی میں ناکامی کی صورت میں پلی بارگین کا معاہدہ ختم ہو جائے گا۔
نیب کے ترمیم شدہ قانون کے مطابق ریفرنس دائر کرنے سے قبل چیئرمین نیب پراسیکیوٹر جنرل کی مشاورت سے ایسی کارروائی منسوخ کر دے گا جو بلاجواز ہو۔
ریفرنس دائر ہونے کے بعد اگر چیئرمین نیب کو لگے کہ ریفرنس بلا جواز ہے تو وہ متعلقہ عدالت سے اسے منسوخ یا واپس لینے کا کہہ سکتے ہیں۔
اب قانون کے تحت نیب آرڈیننس کا اطلاق حکومت کی ایمنسٹی اسکیم کے تحت لین دین ، ریاستی ملکیت کے اداروں کے بورڈ آف ڈائریکٹرز پر نہیں ہو گا۔ پچاس کروڑ روپے سے کم کا کیس نیب کے دائرہ اختیار میں نہیں آئے گا۔ صدر وفاقی حکومت کی سفارش پر پراسیکیوٹر جنرل مقرر کرے گا۔
بل میں وفاقی حکومت کو نیب عدالتوں کے قیام کا اختیار دے دیا گیا یے۔ نیب جرائم کے ٹرائل کے حوالے سے وفاقی حکومت جتنی چاہے عدالتیں قائم کر سکتی ہے۔