آڈیو لیکس کمیشن کا معاملہ: حکومت کا چیف جسٹس عمر عطا بندیال سمیت 3 ججز پر اعتراض

وفاقی حکومت نے موقف اختیار کیا ہے کہ کوڈ آف کنڈکٹ کے مطابق جج اپنے رشتہ دارکا مقدمہ نہیں سن سکتا جبکہ آڈیو لیکس چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی ساس، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر سے بھی متعلق ہیں تو یہ خود کیس کیسے سن سکتے ہیں ؟

وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ میں آڈیولیک کمیشن کے خلاف درخواستوں پر سماعت کے لیے تشکیل دیئے گئے بینچ کے 3 ممبران پر  اعتراض کرتے ہوئے نیا بینچ بنانےکی استدعا کی ہے۔

وفاقی حکومت نے آڈیو لیکس کمیشن کے خلاف درخواستوں کی سماعت کرنے والے سپریم کورٹ کے بینچ سے چیف جسٹس سمیت 2 ججز کو بینچ سے علیحدہ ہونے  کی استدعا کر دی ہے ۔

یہ بھی پڑھیے

نجم ثاقب کی آڈیو لیک کمیٹی کے خلاف درخواست؛ والد کے خلاف کارروائی روکنے کا مطالبہ

حکومت نے پانچ رکنی بینچ کے تین ارکان پر اعتراض اٹھایا جو کہ حالیہ آڈیو لیکس کی تحقیقات کے لیے بنائے گئے عدالتی کمیشن کی تشکیل کو چیلنج کرنے والی پٹیشن کی سماعت کر رہے تھے۔

حکومت  کی جانب سے استدعا کی گئی کہ چیف جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس اعجاز الاحسن اور  جسٹس منیب اختر  آڈیو لیک  کیس نہ سنیں، تینوں  معزز  ججز  لارجر  بینچ میں بیٹھنے سے  انکار کر دیں۔

وفاقی حکومت  کی جانب سے متفرق درخواست آڈیولیک کمیشن کے خلاف درخواستوں کے مقدمے میں جمع کروائی گئی جس میں چیف جسٹس سمیت 2 ججز پر اعتراض کیا گیا ہے ۔

درخواست میں کہا گیا ہےکہ 26 مئی کو سماعت میں چیف جسٹس پر اٹھائےگئے اعتراض کو  پذیرائی نہیں دی گئی، انکوائری کمیشن کے سامنے ایک آڈیو چیف جسٹس کی ساس سے متعلق ہے۔

یہ بھی پڑھیے

آڈیو لیکس جسٹس فائز عیسیٰ کمیشن، چیف جسٹس نے ردی کی ٹوکری میں ڈال دیا

حکومت نے موقف اختیار کیا کہ عدالتی فیصلوں اور کوڈ آف کنڈکٹ کے مطابق جج اپنے رشتہ دارکا مقدمہ نہیں سن سکتا۔ ارسلان افتخار کیس میں چیف جسٹس افتخارچوہدری بینچ سے الگ ہوگئے  تھے ۔

وفاقی حکومت نے کہا کہ مبینہ آڈیو لیک جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر سے بھی متعلق ہیں۔انہیں فوری طور پر چیف جسٹس سمیت لارجر بینچ سے الگ ہونا چاہیئے۔

متعلقہ تحاریر