بلوچ طلباء ہراسگی اور گمشدگی کیس: اسلام آباد ہائی کورٹ کا تحریری حکم جاری

چیف جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا ہے بلوچستان کے طلباء کو یہ احساس نہیں ہونا چاہیے کہ انہیں نسلی طور پر نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے بلوچ طلباء کو ہراساں اور لاپتہ کئے جانے کے متعلق کیس میں کہاہے کہ بلوچستان کے طلباء کو یہ احساس نہیں ہونا چاہیے کہ انہیں نسلی طور پر نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ اس حوالے سے تشکیل دیئے گئے کمیشن کا بھی کوئی اجلاس نہ ہوا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ملک بھر میں بلوچ طلبہ کو ہراساں اور جبری گمشدگیوں کے خلاف کیس کا تحریری حکمنامہ جاری کردیا۔

یہ بھی پڑھیے

ویڈیو اسکینڈل کا معاملہ، طیبہ گل نے سابق چیئرمین نیب کے خلاف شکایت کردی

جس میں کہا گیا کہ بلوچستان سے تعلق رکھنے والے طلباء کی شکایات سنگین ہیں،جن کا ازالہ عوامی اہمیت کا حامل معاملہ ہے، حکمنامہ میں کہا گیا کہ آئین کا آرٹیکل 25 تمام شہریوں کو مساوی قرار دیتا ہے۔

عدالت نے ریمارکس دیئے کہ بلوچستان کے طلباء کو یہ احساس نہیں ہونا چاہیے کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے انہیں نسلی پروفائلنگ کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، نسلی پروفائلنگ اور شہریوں کے ساتھ مختلف سلوک کرنا ضمانت یافتہ بنیادی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں میں سے ایک ہے۔

ہائی کورٹ کے حکم نامے میں کہا گیا کہ عدالت کے سامنے کارروائی کے دوران کافی مواد دکھایا گیا ہے ابتدائی طور پر یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ تعلیمی اداروں میں داخلہ لینے والے بلوچستان کے طلباء کی شکایات ہیں، عدالت نے 28 اپریل 2022 کے حکم نامے میں بلوچستان سے تعلق رکھنے والے طلباء کی سنگین شکایات کی انکوائری کے لیے ایک کمیشن تشکیل دیا تھا۔افسوس کہ اس معاملے کی عوامی اہمیت کے باوجود کمیشن کا اجلاس ابھی تک نہیں ہوا۔

عدالت نے کہا کہ ڈپٹی اٹارنی جنرل کو درخواستوں پر دلائل دینے کے لیے کہا گیا لیکن انہوں نے سماعت ملتوی کرنے کی استدعا کی۔

ہائی کورٹ نے کہا کہ چیئرمین سینیٹ کی جانب سے کمیشن کا اجلاس بلانے کی توقع تھی، سیکرٹری سینیٹ اور سیکرٹری وزارت انسانی حقوق آئندہ سماعت میں ذاتی طور پر پیش ہوں، عدالتی حکم پر معاملے کی اہمیت اور کافی وقت گزر جانے کے باوجود کمیشن کا اجلاس کیوں نہیں منعقد کیا گیا۔

ہائی کورٹ کے حکم نامے میں کہا گیا کہ سیکرٹری وزارت داخلہ کو بھی ہدایت کی جاتی ہے کہ آئندہ سماعت سے پہلے رپورٹ پیش کریں۔وزیر داخلہ سے ملاقات کے باوجود بلوچستان کے طلباء کی شکایات پر کیوں توجہ نہیں دی گئی۔

حکمنامہ میں کہا گیا کہ ضمانت یافتہ بنیادی حقوق کی اس سے زیادہ سنگین اور سنگین خلاف ورزی نہیں ہو سکتی۔آئین کے تحت چلنے والے معاشرے میں ایسی سنگین شکایات کو نظر انداز کرنا ناقابل برداشت ہے، سیکرٹری وزارت دفاع کو اس حوالے سےذمہ دار اہلکاروں کے خلاف کارروائی کی پیشرفت کے حوالے سے رپورٹ پیش کرنے کی بھی ہدایت کی گئی ہے جبکہ ڈپٹی اٹارنی جنرل  کو عدالت نے حکم دیا کہ وہ آئندہ سماعت سے پہلے رپورٹ پیش کریں، مقدمہ کی مذید سماعت 5 جولائی کو ہوگی۔

متعلقہ تحاریر