نیب ترامیم مخصوص افراد کو فائدہ پہنچانے کیلئے کی گئی، جسٹس اعجاز الاحسن

چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کی نیب ترمیم سے متعلق درخواست پرسپریم کورٹ میں سماعت ہوئی، اس دوران جسٹس الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ نیب ترامیم بدنیتی اور مخصوص افراد کو فائدہ پہنچانے کیلئے کی گئی ہیں تاہم جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ اس بات سے اتفاق نہیں کرتا کہ عدالت قانونی معیار مقرر کرتی ہے، قانونی معیار عدالت نہیں آئین طے کرتا ہے

سپریم کورٹ میں عمران خان کی جانب سے نیب ترامیم کے خلاف درخواست پر سماعت کے دوران جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ کرپشن کو اتنا دردناک جرم بنانا چاہئے کہ کوئی ایسا کرنے کی ہمت نہ کرے۔

چیف جسٹس پاکستان عمرعطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے بینچ نے عمران خان کی جانب سے نیب ترامیم کے خلاف درخواست پر سماعت کی۔ دوران سماعت عدالت نے ریمارکس دیئے کہ کرپشن کو دردناک جرم بنانا چاہئے۔

یہ بھی پڑھیے

سپریم کورٹ کے احکامات کے برخلاف نیب افسران کے ایف آئی اے میں تبادلے

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ہوسکتا ہے کہ نیب ترامیم بدنیتی اور مخصوص افراد کو فائدہ پہنچانے کیلئے کی گئی ہیں۔ نیب ترامیم کے بعد ٹرائل اتنا مشکل بنا دیا گیا ہے کہ کرپشن ثابت ہو ہی نہیں سکتی۔

جسٹس منصور علی شاہ نے جسٹس اعجاز الاحسن کے ریمارکس پر کہا کہ میں اس بات سے اتفاق نہیں کرتا کہ عدالت قانونی معیار مقرر کرتی ہے، قانونی معیار عدالت نہیں آئین طے کرتا ہے۔

تحریک انصاف کے وکیل خواجہ حارث نے حالیہ نیب ترامیم بنیادی انسانی حقوق سے متصادم ہونے پر دلائل دیتے ہوئے کہا کہ تمام نیب کیسز احتساب عدالتوں کو بھیجے تو کئی افراد تمام الزامات سے بری ہوئے۔

تحریک انصاف کے وکیل کا کہنا تھاکہ موجودہ نیب ترامیم سے کرپٹ ملزمان بری ہو کر مزے سے گھروں میں بیٹھے ہیں۔ لوگ آئین کو سبوتاژ کرکے بھی گھروں میں بیٹھے ہیں، کیا نیب ترامیم سے کوئی ثابت شدہ کرپٹ مجرم بری ہوا ہے؟۔

 عدالت عظمٰی نےپی ٹی آئی کے وکیل سے دریافت کیا کہ نیب ترامیم سے براہ راست بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی کیسے ہورہی ہے؟۔ کیا بجٹ پیش ہونے پر ہر دوسرا شخص عدالت آسکتا ہے کہ یہ غلط بنایا گیا؟۔

ایف بی آر کسی کو ٹیکس چھوٹ دے تو کیا یہ بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی میں آئے گا؟۔جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ لگتا ہے آپ ہر ویک اینڈ کے بعد کیس میں ایک نیا نکتہ نکال لیتے ہیں۔

جسٹس اعجازلاحسن نے کہا کہ نیب ترامیم سے اب پیسے معاف کر کے کرپشن چارجز ختم کیے جا رہے ہیں۔ جسٹس منصور نے کہا کہ جب ٹرائل کے بعد ثابت ہوا ہی نہیں کہ ایک شخص کرپٹ ہے یا نہیں توبنیادی حقوق کیسے متاثر ہو گئے؟۔

جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ نیب ترامیم کے بعد ٹرائل اتنا مشکل بنا دیا گیا ہے کہ کرپشن ثابت ہو ہی نہیں سکتی۔جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ اقوام متحدہ کا معذور افراد پر کنونشن آئین پاکستان کا حصہ نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ کیا عدالت پارلیمنٹ کو عالمی کنونشنز پر قانون سازی کا حکم دینا شروع کر دے؟ ۔اس طرح تو عالمی کنونشن ہی آئین پاکستان کہلانے لگیں، عدالت ایگزیکٹو کے بنائے قوانین میں تب مداخلت کرسکتی ہے جب وہ آئین سے متصادم ہو۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ عوامی پیسے پر کرپشن ہونے سے عوام کے ہی حقوق متاثر ہوں گے۔ قوانین کو بین الاقوامی معیار کے مطابق ہی ہونا ہوتا ہے۔ دنیا کا کوئی ایسا ملک نہیں جو کرپشن کا حامی ہو۔ مجھے پرانے نیب قانون میں ترامیم کی کوئی ٹھوس وجہ نہیں ملی۔

یہ بھی پڑھیے

پی ٹی آئی کرپشن مقدمات میں سستی ، پرانے ڈی جی نیب لاہور رخصت نئے آ گئے

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ کرپشن کو اتنا دردناک جرم بنانا چاہئے کہ کوئی اسے کرنے کی ہمت نہ کرے، ہوسکتا ہے یہی ثابت ہو کہ نیب ترامیم بدنیتی اور مخصوص افراد کو فائدہ پہنچانے کے لیے کی گئی ہیں۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ میں اس بات سے اتفاق نہیں کرتا کہ عدالت قانونی معیار مقرر کرتی ہے۔ قانونی معیار عدالت نہیں آئین طے کرتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگر کرپشن پر قوانین موجود ہی نہ ہوں تو عدالت کہہ سکتی ہے کہ بنائیں۔ آخر میں قانون پارلیمنٹ نے ہی بنانا ہے۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ نیب ترامیم کالعدم ہونے سے پرانا قانون ازخود نافذ ہو جائے گا؟۔

عدالت نے عمران خان کے وکیل کو تین روز میں دلائل مکمل کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کیس کی مزید سماعت کل تک ملتوی کردی۔

متعلقہ تحاریر