سپریم کورٹ کا مدینہ مسجد کی جگہ پر ایک ہفتہ میں پارک بحال کرنے کا حکم

چیف جسٹس گلزار احمد نے طارق روڈ کی درست حدود نہ معلوم ہونے پر ایڈمنسٹریٹر ڈی ایم سی ایسٹ کی سخت سرزنش کی۔

سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں طارق روڈ کے قریب واقع مدینہ مسجد کی تعمیر کیس کی سماعت ، عدالت عظمیٰ نے مدینہ مسجد کی جگہ پر ایک ہفتہ میں پارک بحال کرنے کا حکم دے دیا۔

طارق روڈ پر قائم مدینہ مسجد کیس کی سماعت چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے کی۔ سماعت کے دوران چیف جسٹس کے استفسار پر ایڈمنسٹریٹر ڈی ایم سی ایسٹ نے بتایا کہ پارک کی زمین پر مسجد تعمیر ہوئی ہے۔

یہ بھی پڑھیے

رانا محمد شمیم توہین عدالت کیس ، تمام ملزمان پر آئندہ سماعت پر فرد جرم عائد کی جائے گی

اسد عمر کا ملک بھر میں 15 کروڑ سے زائد ویکسی نیشن کا دعویٰ

چیف جسٹس نے پھر استفسار کیاکہ آپ غیر قانونی مسجد کے خلاف کارروائی کیوں نہیں کرتے ؟ جس پر ایڈمنسٹریٹر ایسٹ نے کہا کہ عدالت حکم دےتو کارروائی کریں گے۔

چیف جسٹس گلزار احمد نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آپ لوگوں کو دیکھ کر حیرانگی ہوتی ہے آپ کا کام ہے اور ہمارے حکم کا انتظار کرتے ہیں ، آپ لوگوں کو کس لیے بٹھایا گیا ہے ؟

جسٹس قاضی امین کا کہنا تھا کہ یہ یہ عبادت گاہیں نہیں اقامت گاہیں ہیں ، نہ بجلی کا بل نہ کوئی اور بل ، یہ تو ہمارے سامنے آگیا کراچی میں کہی ایسی جگہیں ہیں جہاں غیر قانونی تعمیرات کردی گئیں اور کوئی پوچھنے والا نہیں۔

چیف جسٹس گلزار احمد نے طارق روڈ کی درست حدود نہ معلوم ہونے پر ایڈمنسٹریٹر ڈی ایم سی ایسٹ کی سرزنش کرتے ہوئے حکم دیا کہ جا کر دیکھیں پی ای سی ایچ ایس کا کیا حال ہوگیا ہے ، چالیس سال پہلے کیسا تھا کراچی اور اب کیا ہوگیا ، آپ لوگ دفتروں میں بیٹھنے آتے ہیں چائے پیئیں گپ لگائیں اور گھر جائیں کام کوئی نہیں ہے آپ کے پاس ، جاکر دیکھیں بحریہ ٹائون بلڈنگ کے پیچھے برج بن گیا۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کون کروارہا ہے سب کچھ ؟ کیا کیا ہے اس شہر کے ساتھ آپ لوگوں نے ، ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے اس کو ٹھیک کرنے کیلئے تو بلاسٹ کرنا ہوگا ، دوبارہ بنے گا یہ شہر ، جیسے جرمنی بنا ، جاپان بنا ، پولینڈ بنا ایسے بنانا پڑے گا یہ شہر۔

چیف جسٹس گلزار احمد کا کہنا تھا کہ دو دو سو گز پر آٹھ منزلہ عمارتیں بنا دی گئیں ، زلزلہ آے گا سب ختم ہو جائے گا ، کروڑوں لوگ مر جائیں گے ، اگر آپ بچے تو آپ پر خون ہوگا سب لوگوں کا۔  آپ لوگوں کو کیا پرواہ ، سوچتے ہیں میں تو چلا جائوں گا ریٹائر ہوکر ، باہر جاکر لائف انجوائے کروں گا جیسے سب کرتے ہیں ، بوریا بستر لپیٹ کر چلا جائوں گا جیسے دوسرے چلے جاتے ہیں باالخصوص سرکاری افسران۔

سماعت کے دوران چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ جہاں چار آدمی کا گھر وہاں چالیس گھرانے رہ رہے ہیں ، یہاں سلیپ بک رہے ہیں ، کیا کررہے ہیں ، صرف پیسہ ہی بنانے کا کام کرنا ہے ؟ سب صرف پیسہ بنانے میں لگے ہیں ، پی ای سی ایچ ایس سے نارتھ  ناظم آباد تک ایک ہی حال ہے ۔

متعلقہ تحاریر