خود مختار کشمیر کی حامی تنظیم مزید 2 دھڑوں میں تقسیم

18 نومبر کو جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ کے سپریم کونسل کے اجلاس میں جنرل کونسل سمیت تمام زونل تنظیموں کو تحلیل کر کے خواجہ سیف الدین کی سربراہی میں 41 رکنی عبوری کمیٹی تشکیل دی گئی تھی۔

تنظیمی ڈھانچہ تحلیل کرنے اور تنظیم نو کے اعلان کے بعد خودمختار کشمیر کی حامی تنظیم جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ (جے کے ایل ایف) اختلافات کا شکار ہو کرمزید 2 دھڑوں میں تقسیم ہوگئی ہے۔

تقسیم کا یہ عمل ایک ایسے مرحلے پر سامنے آیا ہے جب انڈیا نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کو ختم کرنے کے ساتھ لبریشن فرنٹ کے چیئرمین یاسین ملک کو 30 سال قبل لگائے جانے والے الزامات میں گرفتار کر کے جیل میں قید کیا ہوا ہے۔

مقبوضہ کشمیر کی خصوصی آئینی حثیت کے خاتمے کے بعد انڈیا نے ریاست جموں و کشمیر کو 2 حصوں میں تقسیم کردیا ہے۔ جبکہ گلگت بلتستان کو صوبہ بنانے کے منصوبے پر پیشرفت ہوچکی ہے۔

آزادجموں و کشمیر کو بھی صوبہ بنانے کے بارے میں اس خطے کے وزیراعظم راجہ فاروق حیدرخان مظفرآباد کی تحصیل نصیرآباد میں حال ہی میں ایک جلسہ میں کہہ چکے ہیں کہ ‘آزاد کشمیر کو صوبہ بنانے کا خطرہ اپنی جگہ موجود ہے جس کی ہم شدید مخالفت کریں گے’۔

جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ
راجہ مظفر سابق سربراہ لبریشن فرنٹ امان اللہ خان کے ہمراہ

انہوں نے اس ضمن میں مسلم لیگ (ن) کی مرکزی قیادت سے بھی کہا کہ وہ اس کی مخالفت کریں ورنہ وہ اُس کے خلاف بھی بات کریں گے۔ کیونکہ اقوام متحدہ میں مقبوضہ کشمیر سے متعلق کسی فیصلے سے قبل علاقوں کو صوبہ بنانا درست نہیں۔ اس سے عالمی سطح پر پاکستان کا موقف کمزور ہوتا ہے۔

تقسیم کا آغاز کیسے ہوا؟

گزشتہ برس 18 نومبر کو جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ کے چیئرمین یاسین ملک کے ترجمان رفیق ڈار نے میڈیا کو بتایا کہ سپریم کونسل کے اجلاس میں جنرل کونسل سمیت تمام زونل تنظیموں کو تحلیل کردیا گیا ہے اور خواجہ سیف الدین کی سربراہی میں 41 رکنی عبوری کمیٹی تشکیل دی ہے جو ایک سال کےعرصے میں تنظیم سازی کا عمل مکمل کرے گی۔

اس متنازعہ فیصلے سے اختلاف کرتے ہوئے تنظیم کے کئی پرانے اور اہم اراکین نے سپریم کونسل سے فیصلہ واپس لینے کا مطالبہ کیا۔ لیکن اختلافات کے شدت اختیار کرنے پر یاسین ملک اورامان اللہ خان کے پرانے ساتھیوں اورامریکا ویورپ میں مقیم رہنماؤں کا ایک گروپ سامنے آیا۔ جس کی قیادت راجہ مظفر، الطاف قادری اورفاروق پاپا نامی رہنما کر رہے ہیں۔ گروپ نے تنظیمیں تحلیل کرنے کے فیصلے کو معطل کرتے ہوئے تمام زونل تنظیموں کو بحال کردیا اورمرکزی باڈی و سپریم کونسل کی متوازی عبوری لیڈرشپ کونسل قائم کردی۔

جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ
جے کے ایل ایف کے چیئرمین یاسین ملک سابق انڈین وزیراعظم من موہن سنگھ کے ہمراہ

یہ کونسل امریکہ میں مقیم سینئر کشمیری حریت پسند رہنما اور یاسین ملک کے دستِ راست الطاف قادری کی کنوینرشپ میں لبریشن فرنٹ کے چیئرمین کی رہائی تک تنظیم کے تمام انتظامات چلائے گی۔ کونسل کے پہلے اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ لبریشن فرنٹ کے وائس چیئرمین سلیم ہارون، اسسٹنٹ سیکرٹری جنرل ساجد صدیقی اور پاکستان میں یاسین ملک کے نمائندے اور ترجمان رفیق ڈار کی رکنیت معطل کردی جائے۔ جبکہ تحلیل کیے جانے والے زونزکے تمام تنظیموں کو بحال کرتے ہوئے عبوری جنرل کونسل بھی قائم کردی جائے۔

معطل کیے جانے والے ممبران پرالزام عائد کیا گیا کہ انہوں نے یاسین ملک کی اسیری کے دوران تنظیم کی نظریاتی جہت سے روگردانی کی اورتنظیم کی عبوری کونسل تشکیل دی اوراختیارات سے تجاوز کرتے ہوئے یاسین ملک کی منظوری کے بغیر زونل تنظیمیں توڑ کرنئی تنظیمیں تشکیل دینے کی کوشش کی۔ معطل ہونے والے اراکین پر یہ بھی الزام ہے کہ انہوں نے ملک یاسین کی اسیری کے دوران اُن کے مشورے کے بغیر صدر آزاد جموں و کشمیر سے یاسین ملک کے نام پر متنازعہ ایوارڈ بھی وصول کیا۔

یہ بھی پڑھیے

آزاد جموں کشمیر میں شہید افراد کی نماز جنازہ ادا

عبوری کونسل کے کنوینئر الطاف قادری نے اس ساری صورتحال پر بات کرتے ہوئے کہا کہ 18 نومبر کو جنرل کونسل سمیت تمام زون کی تنظیم کو تحلیل کرنے والے ذمہ داران نے جنرل کونسل کے اکثریت ممبران کو اعتماد میں نہیں لیا۔ صرف 5 ممبران سے مشورہ کیا جن کو خود بھی معلوم نہیں تھا یہ کیا کرنے جا رہے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ معطل ذمہ داران نے اختیار سے تجاوز کرتے ہوئے جنرل کونسل کو بھی تحلیل کیا جو ان کے اختیار میں نہیں تھا۔ قیادت کے مشورے کے بغیر انہوں نے تنظیم تحلیل کر کے نہ صرف تنظیم بلکہ اس کے چئیرمین ملک یاسین کی ساکھ کو بھی نقصان پہنچایا۔

انہوں نے کہا کہ لائن آف کنٹرول کے دونوں اطراف جموں و کشمیر کے موجودہ حالات اس بات کا تقاضہ کرتے ہیں کہ ہم انڈیا اور پاکستان سے باہر نکل کر دنیا کو بتائیں کہ یاسین ملک سمیت ہمارے ساتھ کیا ہورہا ہے۔ ہمارا واحد اور پہلا ایجنڈا یہ ہے کہ ہم کس طرح یاسین ملک کو جیل سے رہا کروائیں، اس کے لیے ہم دنیا بھر کی امن پسند آواز کو ان کی رہائی کے لیے ساتھ ملانا ہوگا۔

جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ
چئیرمین جے کے ایل ایف یاسین ملک وزیر اعظم پاکستان عمران کے ہمراہ

انہوں نے کہا کہ امریکہ کے نئے صدر اور نئی انتظامیہ سے کافی امید ہے کہ وہ مقبوضہ کشمیر میں جاری انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر سنجیدگی سے ایکشن لے گیں جس سے انڈیا پر دباؤ بڑھے گا اور یاسین ملک کی رہائی ممکن ہوسکے گی۔ وطن کی آزادی کے لیے کام کرنے والے تمام افراد متحد ہوں اور اس نازک مرحلے پر اپنی سطح پر کردار ادا کریں کیونکہ ہم سب رضاکار ہیں، یہاں کوئی کسی کے ماتحت نہیں۔

رفیق ڈار ملک یاسین کے ترجمان کے طور پر گزشتہ کئی برس سے کام کر رہے ہیں جن کے بارے میں امریکہ میں مقیم الطاف قادری کا موقف ہے کہ ان سمیت تین ذمہ داران کی رکنیت معطل کی گئی ہے جبکہ جنرل کونسل کے سامنے ان کے پورے موقف کو سننے کے بعد ان کے بارے میں مزید فیصلہ کیا جائے گا۔

رفیق ڈار نے بتایا کہ ہمارا 18 نومبر کو ہونے والا اجلاس غیرآئینی نہیں، ہمارے جنرل کونسل کے سربراہ خواجہ سیف الدین ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہماری جانب سے تنظیم کو تحلیل کرنے کے کچھ افراد مخالف تھے جنہوں نے دیگر ایسے افراد سے مل کر تنظیم میں نئی گروپ بندی کی ہے جو کافی عرصہ سے تنظیم میں متحرک نہیں تھے۔ ہمیں تنظیم سے فارغ کرنے والوں کے پاس اختیار نہیں۔

انہوں نے اس بات کو بھی مسترد کیا کہ الطاف قادری سمیت کسی کو ملک یاسین کو ان کی حمایت حاصل ہے۔ الطاف قادری سمیت راجہ مظفر کئی برس سے پارٹی میں متحرک نہیں۔

جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ
حریت پسند رہنما مقبول بٹ شہید کے دیرینہ ساتھی راجہ مظفر چئیرمین لبریشن فرنٹ یاسین ملک کے ہمراہ

رفیق ڈار نے بتایا کہ 3 جنوری 2021 کو ہماری عبوری کمیٹی سمیت دیگر سینئر ممبران کا اجلاس منعقد ہوا جس میں مقبوضہ کشمیر، آزاد کشمیر اور دنیا بھر سے جماعت کے افراد نے شرکت کی۔ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ 18 نومبر کو ہونے والا اجلاس اور اس میں ہونے والے فیصلے آئینی ہیں اور انہیں سب کی مکمل حمایت حاصل ہے۔ اس فیصلے کے خلاف جانے والے جماعت کے ممبران کو ایک مرتبہ پھر آخری موقع دیا گیا ہے کہ وہ اپنے اس اقدام سے پیچھے ہٹیں۔ بصورت دیگر ان کے خلاف نظم و ضبط کی خلاف ورزی پر کارروائی کی جائے گی۔

رفیق ڈار نے بتایا کہ اجلاس میں یہ بھی فیصلہ کیا گیا ہے امریکہ میں مقیم راجہ مظفر سمیت دیگر بیرون ملک مقیم افراد کا لبریشن فرنٹ سے کوئی تعلق نہیں۔ لیکن مظفرراجہ نے بتایا کہ لبریشن فرنٹ کے سربراہ اس وقت اسیرہیں اوربھارتی حکومت کے عزائم ان کے بارے میں خطرناک ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

یوم یکجہتی کشمیر پر پاکستان میں بھارتی ایجنٹس کی موجودگی کے الزامات

راجہ مظفر کے مطابق ”ایسی صورتحال میں جب مقبوضہ کشمیرمیں پارٹی پرپابندی ہواورآپ دنیا بھر بشمول آزاد کشمیرمیں اپنی جماعت کی سرگرمیاں جاری رکھ سکتے ہوں توتنظیم کو مظبوط بنانے کے بجائے تحیلیل کرنا کون سے سمجھداری ہے؟ یہ ساری باتیں ہم اس وقت کر رہے ہوں جب پارٹی کے سربراہ کی جان کو خطرہ ہو تو پھر بہت سے سوالات جنم لیتے ہیں۔‘‘

انہوں نے کہا کہ ”جب ملک یاسین کو اپنے وکیل راجہ طفیل کے زریعے معلوم ہوا کہ تنظیم کو تحیلیل کیا گیا توانہوں نے اس سے لاعلمی کا اظہار کیا اور ایسا کرنے سے منع کیا۔ میرے لیے پیغام بھیجا کہ میں ان کی رہائی تک پارٹی کو سنبھالوں جس پر میں نے پارٹی کی قیادت لینے سے معذرت کی۔ مگرموجودہ حالات کے پیش نظر پارٹی کو منتشر ہونے سے بچانے کے لیے تمام بانی ممبران سمیت موجودہ جنرل کونسل کی اکثریت نے فیصلہ کیا ملک یاسین کی رہائی تک ایک عبوری کونسل بنائی جائے۔ جس کے سربراہ امریکہ میں مقیم ملک یاسین کے قریبی ساتھی الطاف قادری ہوں۔‘‘

جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ
یاسین ملک کے ساتھ فاروق صدیقی اور ایک دھڑے کنوینر الطاف قادری

انہوں نے بتایا کہ اس اجلاس میں 18 نومبر کو تحلیل کی جانے والی جنرل کونسل سمیت تمام 6 زونز کے سربراہان کو بھی بحال کر دیا ہے۔ جبکہ  یاسین ملک کی رہائی اوران کی جان کو محفوظ رکھنے کے لیے لبریشن فرنٹ کا دفتر اسلام آباد سے امریکہ منتقل کر دیا گیا ہے۔ گزشتہ برس سے بھارتی مقبوضہ جموں کشمیر میں مودی حکومت نے جموں کشمیر لبریشن فرنٹ پرپابندی لگا رکھی ہے۔ تنظیم کے چیئرمین محمد یاسین ملک کو گرفتارکررکھا ہے جس سے پاکستان اور دنیا بھر میں اس تنظیم کی سرگرمیاں اور تنظیمی ڈھانچہ بری طرح متاثر ہوا ہے۔

اِس کا ایک اور اثر یہ بھی ہوا ہے کہ دونوں اطراف کی حکومتوں کو جے کے ایل ایف پراثرانداز ہونے کا موقع ملا ہے۔ جس کے نتیجے میں آزاد جموں وکشمیرمیں جے کے ایل ایف کی قیادت اجتماعی فیصلوں سے اس خلا کو پرکرنے کی بجاے انتشار کا شکار ہوگئی۔ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ الطاف قادری کی سربراہی میں سامنے آنے والا نیا اور سخت گیر موقف کا حامل دھڑا یاسین ملک کے پرانے ساتھیوں پر مشتمل ہے۔

یہ بھی پڑھیے

نیلسن منڈیلا کی نظر میں کشمیر متنازع خطہ اور محمد علی جناح ہیرو

اس دھڑے نے تنظیم کا سیکرٹریٹ پاکستان سے امریکا منتقل کرنے، لبریشن فرنٹ کے بیانیے کی ازسرنوتشکیل کے علاوہ حریت کانفرنس میں کسی بھی قسم کی شمولیت نہ رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ لیکن یاسین ملک کے ترجمان کے بقول اس دھڑے میں شامل اکثرلوگوں کا حریت کانفرنس سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

متعلقہ تحاریر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے