امریکی یہودی کانگریس كا اسرائیل اور لبنان کے درمیان جنگ بندی کا خیرمقدم اور بیروت كو مستقل امن کی دعوت

ہم اسرائیل اور لبنان کے درمیان جنگ بندی معاہدے کا خیرمقدم کرتے ہیں، جو اس خطے میں استحکام بحال کرنے کی جانب ایک اہم قدم ہے، یہ خطہ سات اکتوبر کے بعد سے ایران اور اس کے پراکسی مسلح جتھوں کی مسلط کردہ مشکلات کا شکار رہا ہے۔

یہ معاہدہ شمالی اسرائیل سے بے دخل ہونے والے ہزاروں اسرائیلی خاندانوں کو واپسی کا راستہ ہموار کرے گا۔ افسوس کی بات ہے کہ ہزاروں اسرائیلی اور لبنانی خاندانوں کو بے گہر ہونے كی تکلیف سے محفوظ ركھا جا سکتا تھا اگر لبنان نے پچھلے سال بھر کے دوران امریکہ اور اسرائیل کی اپیلوں پر توجہ دی ہوتی كہ حزب اللہ كو لگام دیا جائے۔ حزب اللہ ایک ایرانی حمایت یافتہ پراکسی ہے جس نے شمالی اسرائیل پر مسلسل میزائل حملے کئے اور اس ساری صورتحال كو جنم دیا۔

اس معاہدے کو عملی جامہ پہنانے میں امریکی اور اسرائیلی قیادت کی جرات اورعزم کی تعریف کرنی چاہیے۔ ایک سال سے زیادہ عرصے تک، امریکی صدر جو بائیڈن اور اسرائیلی وزیر أعظم بنیامین نیتنیاہو نے اس پیش رفت کے لیے حالات پیدا کرنے کے لیے انتھک محنت کی۔ ان کی کوششوں کے ذریعے، لبنانی حکومت کو آخرکار اپنے شہریوں کے مفاد میں کام کرنے پر مجبور کیا گیا، اور اب لبنانی فوج کو حزب اللہ کے زیرِ اثر علاقوں میں تعینات کرنے پر اتفاق ہوا ہے، اور ایران کے مقاصد کی تابعداری ختم کی گئی۔

ہزاروں لبنانی شہری اب سکون کا سانس لے سکتے ہیں، اور وہ یقینا اسرائیل کے درست عسکری اقدامات پر شکر گزار ہیں جن كی وجہ سےحزب اللہ کے دہشت گرد ڈھانچے کو کمزور کیا گیا اور لبنان كو یہ فیصلہ كرنے كا موقع ملا۔ ان اقدامات نے لبنانی رہنماؤں کو لبنان کے مفادات میں فیصلے کرنے کے قابل بنایا، بجائے اس کے کہ وہ ایران کی اسٹریٹجک خواہشات کے ایجنٹ کے طور پر کام کرتے رہیں۔

جب ہم اس لمحے پر غور کرتے ہیں، تو ہمیں لبنان سے آگے، غزہ کی طرف بھی دیکھنا چاہیے، جہاں اسی طرح کی تبدیلی کی فوری ضرورت ہے۔ جس طرح لبنان نے ایرانی پراکسی سے اپنی خودمختاری حاصل کرنے کی طرف قدم اٹھایا ہے، اسی طرح غزہ کے عوام کو بھی بین الاقوامی مدد کی ضرورت ہے تاکہ وہ حماس کی گرفت سے آزاد ہو سکیں، جو ایران کی ایک اور پراکسی ہے اور جس نے اسرائیلیوں اور فلسطینیوں دونوں کو بے پناہ تکالیف پہنچائی ہیں۔ جس طرح لبنان میں ہوا، اسرائیل کے غزہ میں اقدامات بالآخر وہاں کے فلسطینیوں کو ایرانی ایجنڈوں سے آزادی دلانے میں مدد دینے کا مقصد رکھتے ہیں۔

اگرچہ جنگ بندی کا معاہدہ ایک خوش آئند پیش رفت ہے، اسرائیل کو اس کے نفاذ کی مانیٹرنگ کا حق حاصل ہے۔ یہ ضروری ہے کہ حزب اللہ اس جنگ بندی کا فائدہ اٹھا کر جنوبی لبنان میں اپنی پوزیشنوں کو دوبارہ منظم یا دوبارہ سپلائی نہ کرے۔
اب وقت آ گیا ہے کہ لبنان کے عرب اور بین الاقوامی دوست آگے بڑھیں اور لبنانی قیادت کو اسرائیل کے ساتھ جامع امن کی کوشش کرنے کی ترغیب دیں۔ اس طرح کا قدم نہ صرف ایرانی مداخلت کے تکلیف دہ باب کو ختم کرے گا بلکہ خطے کے لیے استحکام اور خوشحالی کے ایک نئے دور کا آغاز کرے گا۔

بطور امن اور علاقائی استحکام کے حامی، ہم امریکی یہودی کانگریس (AJCongress) میں لبنان سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ اس معاہدے کا احترام کرے اور دونوں ممالک کے لیے ایک روشن مستقبل کی سمت کام کرے

متعلقہ تحاریر