ایک جھوٹی لو اسٹوری جس میں سب سچ ہے

یہ کہانی نہ توکسی امیر خاندان کی ہے نا اس میں ساس بہو کے درمیان ہونے والی جنگ کو ڈرامائی انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ یہ کہانی ایک ہی محلے میں رہنے والے متوسط طبقے سے تعٹق رکھنے والے دو گھرانوں کی ہے۔

پاکستان اور بھارت میں ویب سیریز کا جو خاکہ لوگوں کے ذہن میں ہے اس میں بے حیائی، عریانیت اور سب سے بڑھ کر گالم گلوچ کا ہونا لازم و ملزوم ہے۔ یعنی اگر گالی نہ دی گئی تو ویب سیریز کیسی؟ لیکن اس دور میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو صاف ستھری ویب سیریز بنانے پر یقین رکھتے ہیں۔

زی 5 جیسے بین الاقوامی پلیٹ فارم کے لئے اسے بناکر دنیا بھر سے داد بھی وصول کرتے ہیں۔ یہاں تذکرہ ہے ہدایتکارہ مہرین جبار اور رائٹر عمیرہ احمد کی تخلیق کی ہوئی ‘ایک جھوٹی لو اسٹوری’  کا۔ اِس کی وجہ سے ان لوگوں کا ویب سیریز پر اعتماد بحال ہورہا ہے جو مختلف وجوہات کی بنیاد پر اس سے دور رہتے تھے۔

یہ بھی پڑھیے

عورت کے استحصال کی کہانی ”مشک‘‘ کا جائزہ

والدہ اور کزن کے بعد میرا کی بھی دوسری شادی

ایک جھوٹی لوو اسٹوری کی خاص بات

یہ کہانی نہ توکسی امیر خاندان کی ہے نا اس میں ساس بہو کے درمیان ہونے والی جنگ کو ڈرامائی انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ یہ کہانی ایک ہی محلے میں رہنے والے متوسط طبقے سے تعٹق رکھنے والے دو گھرانوں کی ہے۔

ان دونوں گھرانوں کے مسائل سارے پاکستان کے مسائل سے ملتے جلتے ہیں اور مصنفہ عمیرہ احمد نے مزاح کے ساتھ ساتھ ان تمام مسائل کا حل بھی تجویز کیا ہے۔  یہاں ایک ایسی عورت کی کہانی  بھی ہے جس کے 4 بچے ہیں اور 3 کی شادیاں صرف اس کی انا کی وجہ سے رکی ہوئی ہیں۔

ایک ایسا مرد بھی ہےجو ریٹائرمنٹ کے بعد بھی گھر میں اپنی مرضی نہیں چلاسکتا۔ ایک لڑکا ہے جو خاندان کا واحد کفیل ہے اور اپنی ماں اور بہن پر جان چھڑکتا ہے۔

 لڑکی ہے جسے صرف گھر کا چھوٹا ہونے کی وجہ سے سارے کام کرنے پڑتے ہیں۔ ان تمام لوگوں کی زندگی ایک جھوٹ سے کیسے بدلتی ہے اور ایک دوسرے کو متاثر کرتی ہے یہی بات ایک جھوٹی لو اسٹوری کو خاص بناتی ہے۔

یہ بھی پڑھیے

فرہاد ہمایوں نے کوکا کولا کو قانونی نوٹس بھیج دیا

ایک جھوٹی لوو اسٹوری کی کہانی

سہیل (بلال عباس) کو اسکی ماں (حنا بیات) اس کی بہن (سرحا اصغر) کے رشتے کی خبر اس وقت دیتی ہیں جب وہ صلاح الدین (فرقان قریشی)کے گھر یو پی ایس لگانے گیا ہوتا ہے۔

صلاح الدین کی ماں (بیو ظفر) یہ سن کر بہت خوش ہوتی ہیں کیونکہ اس کے گھر میں دو جوان لڑکیاں (کرن حق، مریم سلیم نواز) شادی کی عمر کو پہنچ چکی ہیں جبکہ سلمی (مدیحہ امام) کالج میں پڑھ رہی ہے۔

اُدھر صلاح الدین اپنے آفس میں کام کرنے والی ایک لڑکی کو چاہتا ہے لیکن اپنی ماں کی وجہ سے کچھ نہیں کہتا جو دونوں بہنوں کی وجہ سے ویسے ہی پریشان رہتی ہے۔

باپ (محمد احمد)  گھر کا واحد عقل مند بڑا ہے لیکن اس کی کوئی بات نہیں سنتا۔ اپنی غربت سے دور بھاگنے کے لئے سلمی اور سہیل فیس بک پر ایک جعلی اکاؤنٹ بناتے ہیں۔ اُس میں دونوں اپنے امیر دوستوں نتالیہ اور نوفل کی تصاویر لگا کر دوسروں کی توجہ حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

 قسمت ان دونوں ہی کو آپس میں ملادیتی ہے اور انٹرنیٹ پر ایک دوسرے کی جھوٹی پروفائل سے محبت کرنے  والے حقیقی زندگی میں ایک دوسرے کی شکل بھی دیکھنا گوارا  نہیں کرتے۔

کیا اداکاروں نے سچائی سے کام کیا؟

ویب سیریز کی سب سے خاص بات کردارو ں کی تخلیق اور اداکاری ہے۔ شروع کی 2 اقساط کے بعد آپ اداکاروں کو بھول کر کرداروں کو دیکھنے لگیں گے۔ بلال عباس کی جگہ آپ کو اسکرین پر سہیل نظر آئے گا۔ مدیحہ امام کی جگہ سلمی اور بیو ظفر کی جگہ اماں۔

18 اقساط پر محیط اس سیریز کی بعض اقساط آدھے گھنٹے سے بھی کم اور چند اُس سے زیادہ بھی ہیں۔ لیکن مجال ہے کہ ایک منٹ کو بھی صلاح الدین 3 بہنوں کا اکلوتا بھائی نا لگا ہو۔ یا سہیل ایک الیکٹریشن اور کمپیوٹر ٹیکنیشن سے کچھ زیادہ لگا ہو۔

سلمی کو دیکھ کر آپ کو اپنے گھر میں موجود چھوٹوں کی یاد آئے گی اور اگر آپ خود سب سے چھوٹے ہیں تو ہنسی کے ساتھ ساتھ اپنے اوپر ہونے والے مظالم بھی یاد آئیں گے۔

تمام اداکاروں کے انتخاب میں بھی احتیاط سے کام لیا گیا ہے۔ بلال عباس کی ماں حنا بیات اور بہن سرحا اصغر کو لیا گیا ہے جو ایک ہی خاندان کے فرد لگتے ہیں۔

اسی طرح مدیحہ امام اور کرن حق حقیقی بہنیں معلوم ہوتی ہیں جبکہ ایسا نہیں ہے۔ نوفل اور نتالیہ کا کردار ادا کرنے والے احمد زیب اور کنرہ رزاق ہائی سوسائٹی کے افراد معلوم ہوتے ہیں۔ اس میں جتنا کمال ہدایتکارہ مہرین جبار کا ہے اتنا ہی پروڈکشن ٹیم کا ہے۔

یہ ویب سیریز ٹی وی ڈراموں سے بہتر ہے؟

ایک جھوٹی لو اسٹوری ہر لحاظ سے ہمارےمقامی ڈراموں سے بہتر ہے۔ ایک تو اسکرین بے حد خوبصورت اور حسین نظر آرہی ہے۔ دوسرا کہانی میں وہی اپنا پن ہے جو 80 کی دہائی میں حسینہ معین کے  ڈراموں میں ہوتا تھا۔ نہ تو ویب سیریز میں کوئی ایسی حرکت دکھائی گئی ہے جس سے دیکھنے والے کو پشیمانی ہو۔ نہ ہی معاشرے کی کسی ایسی بری حرکت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جسے ٹی وی چینلز ریٹنگ حاصل  کرنے کے لئے استعمال کرتے ہیں۔

یہ ایک ہنستی مسکراتی سی عام لوگوں کی کہانی ہے جس سے لوگ لطف اندوز بھی ہوسکتے ہیں اور سبق بھی حاصل کرسکتے ہیں۔ ہمارے ڈراموں کے دوران اشتہارات کی بھرمار کہانی کا تسلسل توڑ دیتی ہے لیکن یہاں کہانی جس رفتار سے شروع ہوتی ہے ختم بھی اسی رفتار سے ہوتی ہے۔

بیک گراؤنڈ میوزک ہو آرٹ ڈائریکشن ہو یا پھر گھریلو قسم کے ڈائیلاگ یہ وہ سب چیزیں ہیں جن پر اب ہمارے زیادہ تر ڈرامہ نگار اور ہدایتکار توجہ نہیں دیتے۔ ایک جھوٹی لو اسٹوری کو دیکھنے کے بعد شاید ٹی وی والے بھی تھوڑے بہادر ہوجائیں۔

یہ ویب سیریز کسی ٹی وی چینل پر چل سکتی ہے؟

مقامی صارفین جنتا صاف ستھرا مواد چاہتے ہیں یہ اس سے بھی کہیں زیادہ ہے۔ مہرین جبار کی ایک جھوٹی لو اسٹوری میں نا تو کوئی گالی دیتا ہے نا ہی کوئی گلی محلے کا غندہ کسی لڑکی کو چھیڑتا ہے۔

یہ سب چیزیں ٹی وی والے ریٹنگز حاصل کرنے کے لئےڈراموں میں ڈالتے ہیں لیکن ویب سیریز کو نہ تو ریٹنگز کا خوف ہے نہ ہی فلاپ ہونے کا ڈر۔

اسی وجہ سے مہرین جبار اور عمیرہ احمد نے وہی کیا جو ان کے دل نے کہا اور دیکھنے والوں کے دل میں اتر گیا۔ چڑیلز کی جگہ اگر اس ویب سیریز سے زی 5 والے اپنی ایپلیکیشن پاکستان میں لانچ کرتے تو دیکھنے والے خوشی خوشی زی 5 کو نہ صرف سبسکرائب کرتے بلکے دوسروں کو ترغیب بھی دیتے۔

فی الحال زی 5 کی ایپ پاکستان میں مشکلات سے دوچار تو ہے لیکن ان کا مواد اب بھی دیکھا جاسکتا ہے اور اس سے بہت کچھ سیکھنے کو بھی مل سکتا ہے۔

متعلقہ تحاریر