کرونا کی وباء کے دوران ذیابطیس نظر انداز

ذیابطیس کا مرض بھی اتنا ہی خطرناک ہے جتنا کینسر یا دل کی بیماریاں، پروفیسر اینڈریو بولٹن

عالمی تنظیم برائے ذیابطیس کا کہنا ہے کہ کرونا وباء کے دوران ذیابطیس سمیت کئی خطرناک بیماریوں کو نظر انداز کیا گیا ہے۔

انٹرنیشنل ڈائبٹیز فیڈریشن کے صدر پروفیسر اینڈریو بولٹن نے اتوار کے روز نیشنل ایسوسی ایشن آف ڈائبٹیز ایجوکیٹرز آف پاکستان اور بقائی انسٹیٹیوٹ آف ڈائبیٹولوجی اینڈ اینڈوکرائنولوجی کے تحت ہونے والی آٹھویں ڈائبٹیز فٹ کانفرنس 2020ء کے اختتامی سیشن سے خطاب کیا۔

 پروفیسر اینڈریو بولٹن نے کہا کہ ‘ذیابطیس کا مرض بھی اتنا ہی خطرناک ہے جتنا کینسر یا دل کی بیماریاں۔ اسے آسان بیماری سمجھنے والے لوگ جلد ہی اپنی ایک یا دونوں ٹانگوں سے محروم ہوجاتے ہیں۔ جبکہ کئی لوگوں کو اپنی بینائی سے بھی ہاتھ دھونا پڑسکتا ہے۔ کرونا وائرس کے نتیجے میں ذیابطیس سمیت کئی بیماریوں کو نظر انداز کیا گیا۔ اس سے آنے والے وقتوں میں کافی بڑی قیمت ادا کرنی پڑسکتی ہے’۔

انہوں نے کہا کہ کرونا وباء کے دوران ذیابطیس سمیت دیگر کئی خطرناک بیماریوں کو نظر انداز کیا گیا۔ ادھر برطانیہ میں کرونا انفیکشن سے مرنے والے ایک تہائی افراد ذیابطیس کے مریض تھے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں تقریباً ساڑھے 4 کروڑ افراد ذیابطیس کے مرض میں مبتلا ہوسکتے ہیں۔ ان کی اکثریت کرونا وائرس کی پہلی اور اب دوسری لہر کے دوران اپنے مرض پر توجہ نہیں دے سکی۔

یہ بھی پڑھیے

پاکستان کی ایک تہائی آبادی غذائی قلت کا شکار

پروفیسر اینڈریو بولٹن نے کہا کہ لوگ ذیابطیس کو کینسر یا دل کے امراض کی طرح سنجیدہ نہیں لیتے۔ اس لیے ذیابطیس میں مبتلا ہزاروں افراد اپنی ٹانگوں اور بینائی سے محروم ہو جاتے ہیں۔ اس کی ایک بنیادی وجہ شوگر کے باعث پاؤں میں ہونے والے زخم ہیں۔

 انہوں نے کہا کہ کرونا وباء کی وجہ سے کچھ آسانیاں بھی پیدا ہوئی ہیں۔ ٹیلی میڈیسن کا فروغ اور ڈیجیٹل ایجوکیشن کے ذریعے آگاہی بڑھی ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ پوری دنیا ذیابطیس کے مرض پر توجہ دے۔ خاص طور پر ترقی پذیر ممالک بشمول پاکستان میں ذیابطیس کے مرض کو وہ توجہ دی جائے جس کا وہ متقاضی ہے تاکہ لاکھوں لوگوں کو موت اور معذوری سے بچایا جاسکے۔

اس موقع پر معروف ماہر امراض ذیابطیس اور ڈائبیٹک ایسوسی ایشن آف پاکستان کے سیکرٹری جنرل پروفیسر عبدالباسط نے کہا کہ ‘ضرورت اس امر کی ہے کہ ذیابطیس کے مرض میں مبتلا افراد کو اتنی آگاہی اور سہولیات فراہم کی جائیں۔ اس طرح ان کے پیروں میں ہونے والے زخموں کو روکا جا سکے’۔

انہوں کہا کہ پاکستان میں ہر سال لاکھوں افراد ذیابطیس کے نتیجے میں اپنی ٹانگوں سے محروم ہوجاتے ہیں۔ ٹانگیں کٹنے کے بعد ذیابطیس کے تیس فیصد افراد ایک سال میں انتقال کر جاتے ہیں۔ جبکہ ان افراد کی 70 فیصد تعداد کی موت پانچ سال کے اندر ہوجاتی ہے۔

پروفیسر عبد الباسط نے مزید کہا کہ پورے ملک میں تین ہزار فٹ کلینک قائم کر کے پاکستان میں لاکھوں افراد کو معذوری اور غربت کی لکیر سے نیچے جانے سے بچایا جاسکتا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

کیا 17 نومبر کو کرونا کا پہلا کیس سامنے آیا تھا؟

انٹرنیشنل کانفرنس کے سیکرٹری جنرل ڈاکٹر زاہد میاں نے کہا کہ ‘ایک طرف تو شوگر کے مریضوں کے پاؤں میں ہونے والے زخم ایک بہت بڑا مسئلہ ہیں۔ تو دوسری جانب انفیکشنز کا علاج اب ایک نیا مسئلہ بنتا جا رہا ہے’۔

انہوں نے کہا کہ پاؤں کے زخم ملٹی ڈرگ ریسسٹنٹ بیکٹیریا کی وجہ سے تیزی سے خراب ہوتے ہیں۔ اکثر دوائیں ان زخموں پر اثر نہیں کرتیں۔ ان حالات میں کوشش کی جانی چاہیے کہ شوگر کے مرض کو دواؤں اور ورزش سمیت صحت مند غذاء کے ذریعے کنٹرول کر کے پیچیدگیوں سے بچا جاسکے۔

نامور ماہرامراض ذیابطیس ڈاکٹر سیف الحق نے کہا کہ ‘شوگر کے نتیجے میں پاؤں میں ہونے والے زخموں کا علاج ماہرین امراض ذیابطیس کو ہی کرنا چاہیے۔ 70 سے 80 فیصد کیسز میں ایسے زخموں کا علاج ممکن ہے۔ علاج نتیجے میں پاؤں کٹنے سے بچائے جاسکتے ہیں’۔

یہ بھی پڑھیے

پاکستان دوبارہ لاک ڈاؤن کی طرف جارہا ہے؟

متعلقہ تحاریر