حکومت اور حزبِ اختلاف کی تلخ نوائی
حکومت اور حزب اختلاف کے درمیان گزشتہ دو روز سے مختلف اور متضاد بیانات نا صرف اُن کی جماعتوں کے کارکنان کی سمجھ سے باہر ہیں بلکہ عوام بھی اِس صورتحال کو سمجھنے سے قاصر ہے۔
حکومت اورحزبِ اختلاف کی جماعتوں کے درمیان تلخ نوائی شدت اختیار کر گئی ہے۔ متضاد بیانات سامنے آ رہے ہیں اور سیاسی رہنماؤں کی لفظی جنگ زور و شور سے جاری ہے۔ ایسے میں کارکنان اور عوام مخمصے میں ہیں۔
پاکستان کا سیاسی درجہ حرارت بڑھتا جارہا ہے۔ حکومت کے ایک کروڑ نوکریاں، 50 لاکھ گھر اور 10 ارب درختوں جیسے داد طلب اعلانات نہ جانے کب پورے ہوں گے۔ حزب اختلاف کی جماعتیں حکومت پر دباؤ ڈالنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑرہیں۔
حکومت اور حزب اختلاف کے درمیان گزشتہ دو روز سے مختلف اور متضاد بیانات نا صرف اُن کی جماعتوں کے کارکنان کی سمجھ سے باہر ہیں بلکہ عوام بھی اِس صورتحال کو سمجھنے سے قاصر ہے۔
وزیر اطلاعات و نشریات شبلی فراز، وزیراعلیٰ پنجاب کی معاون خصوصی فردوس عاشق اعوان اور وزیر جیل خانہ جات پنجاب فیاض الحسن چوہان نے مذاکرات اور مفاہمت کی ضرورت پر زور دیا ہے۔
یہ بھی پڑھیے
کیا پیپلزپارٹی پی ڈی ایم سے دور ہو رہی ہے؟
چند روز قبل فنکشنل لیگ کے رہنما محمد علی درانی نے کوٹ لکھپت جا کر شہباز شریف سے ملاقات کی تھی جس کے بعد افواہیں گردش کرنے لگی تھیں کہ محمد علی درانی حکومت اور حزبِ اختلاف میں درمیانہ راستہ تلاش کرنے کے لیے گئے تھے۔ لیکن وزیراعظم عمران خان نے خود واضح کردیا کہ مذاکرات کا فورم پارلیمنٹ ہے۔ محمد علی درانی حکومت کی طرف سے نہیں گئے تھے۔ اتوارکے روز وزیر سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے بھی اِس بات کا اعدہ کیا کہ محمد علی درانی حکومتی نمائندے نہیں تھے۔
ایسی صورتحال میں یہ بات سمجھ سے باہر ہے کہ پھر حکومت اور حزب اختلاف کے درمیان مفاہمت کی بات محمد علی درانی نے کیوں کی اور کس کے کہنے پر کی۔ اُس ملاقات میں شہباز شریف نے مفاہمت اور مذاکرات پر زور دیا تھا لیکن اتوار کو ہی ایک اور جلسے سے خطاب میں مریم نواز نے کہا کہ پارٹی کی پالیسی واضح ہے اور شہباز شریف کو نہیں معلوم تھا کہ ان سے کون ملنے آ رہا ہے۔
اتوارکوسابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو کی 13ویں برسی کے موقع پر گڑھی خدا بخش لاڑکانہ میں منعقدہ جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ عمران خان نے 31 جنوری تک استعفیٰ نہیں دیا تو لانگ مارچ ہوگا۔ ہم اسلام آباد کا رخ کریں گے اور بھرپور تحریک چلائیں گے۔
اسی جلسے میں پاکستان پیپلز پارٹی سمیت دیگر جماعتوں کے قائدین بھی شریک ہوئے۔ لیکن مولانا فضل الرحمان نے شرکت سے معذرت کرلی۔
جس کے بعد مسلم کیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز نے بھی جلسے سے خطاب میں عمران خان پر لفظی گولہ باری کی۔ انہوں نے کہا کہ ناکام شخص پی ڈی ایم سے این آراو مانگ رہا ہے۔
یہ بھی پڑھیے
پسِ پردہ ہاتھ حکومت اور پی ڈی ایم کے درمیان حائل خلیج پاٹنے کے خواہاں
مریم نواز نے وزیراعظم عمران خان کو مخاطب کرتے ہوئے اُنھیں ”تابعدار خان‘‘ کہا کہ وہ یہ جنگ ہارچکے ہیں۔ دوسری جانب حکومت نے حزبِ اختلاف کو ٹھنڈا کرنے کی بجائے خود بھی تلخ نوائی کا طریقہ اختیار کیا ہوا ہے۔
اتوار کو ہی سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر جاری پیغام میں وفاقی وزیر اطلاعات سینیٹر شبلی فراز نے کہا کہ آج ذوالفقار علی بھٹو اور بی بی شہید کی روح کو تکلیف پہنچ رہی ہوگی کیونکہ ان کے فلسفے اور نظریات کے بدترین مخالف آج ان کے گھر براجمان ہیں۔ ان کا ایجنڈا اپنی ذات سے شروع ہو کر اپنی ذات پر ختم ہو جاتا ہے اور ان کے پاس عوام کیلئے کچھ نہیں ہے۔
آج ذوالفقار علی بھٹو اور بی بی شہید کی روح کوتکلیف پہنچ رہی ہوگی کہ ان کے فلسفے اور نظریات کے بد ترین مخالف آج ان کے گھر براجمان ہیں انکاایجنڈا اپنی ذات سے شروع ہوکر اپنی ذات پر ختم ہو جاتا ہے۔ان کے پاس عوام کے لیے کچھ نہیں۔
— Senator Shibli Faraz (@shiblifaraz) December 27, 2020
جس کے بعد حسبِ توقع حزبِ اختلاف نے بھی برجستگی سے جواب دیا۔ مسلم لیگ (ن) کی ترجمان مریم اورنگزیب نے کہا کہ آج احمد فراز کی روح یقیناً تکلیف محسوس کرتی ہوگی کہ ان کے فلسفے اور نظریات کے بدترین مخالف کا ترجمان خود ان کا بیٹا ہے۔
ادھر وزیراعلیٰ پنجاب کی معاون خصوصی برائے اطلاعات فردوس عاشق اعوان نے مریم نواز کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ہے کہ راجکماری ہر روز جھوٹوں کی نئی پٹاری کھول رہی ہے۔ ان کے مفرور والد کی سیاست ہر روز سکڑ رہی ہے۔ راجکماری کو اپنے والد سے یہ سوال پوچھنا چاہیے کہ آج ملک میں غربت، بے روزگاری اور مہنگائی میں ان کی کرپشن اور ڈکیتیوں کا کتنا ہاتھ ہے؟
یہ بھی پڑھیے
حکومت اور پی ڈی ایم کے درمیان اعصاب کی جنگ
حکومت اور حزبِ اختلاف دونوں ہی جانب سے ایک دوسرے کو نیچے اور پیچھے دھکیلنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ پہلے بات سیاست تک محدود رہتی تھی لیکن اب ذاتیات تک پہنچ جاتی ہے۔ قائدین کے ایک دوسرے پر الزامات پر کارکنان بھی لڑ پڑتے ہیں۔ دونوں حریفوں کو چاہیے کہ موقع کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے درمیانہ راستہ اختیار کریں۔