مشرقی وسطیٰ ایک بڑی تبدیلی کی جانب گامزن

امریکی صدرجو بائیڈن نے واضح کیا تھا کہ مشرق وسطیٰ ان کی انتظامیہ کی خارجہ پالیسی کی ترجیح نہیں رہا 

لاقانونیت ، غربت ،  آمرانہ طرز حکومت اور اقربا پروری کے خلاف دسمبر 2010 کو عرب افریقی ملک تیونس سے شروع ہونے والے احتجاج نے آہستہ آہستہ تقریباً پورے مشرق وسطیٰ کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔

تیونس سے شروع ہونے والے ان احتجاجی مظاہروں جس کو ’’بہارِ عرب‘‘ (عرب اسپرنگ) ایک انقلابی لہر کا نام دیا گیا جس نے کئی عرب ممالک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور کئی دہائیوں پر محیط بادشاہتوں کا تختہ الٹ دیا۔دیکھا جائے تو یہ احتجاجی مظاہرے خالصتاً عوامی  غیظ و غضب کا  نتیجہ تھے جو عشروں سے جاری آمروں کی حکمرانی  کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے تھے۔ لیکن اس کے پس پردہ اور بہت سے عوامل اور قوتیں تھیں جنہوں نے عوامی طاقت کو استعمال کرتے ہوئے اپنے مقاصد تک رسائی کےلیے ایک بہت مضبوط اور بہترین حکمت عملی سے تیار کردہ منصوبے کو آگے بڑھانا شروع کیا۔عرب بہار کے نیتجے میں  مجموعی طورپر ساٹھ ہزار سے زائد افراد ہلاک ہوئے جبکہ مصر  ی دارالحکومت قاہرہ  کاالتحریر اسکوئر  جو انقلاب کی علامت بن گیا چکا ہے یہاں  سیکورٹی فورسز اور مظاہرین کے درمیان پرتشدد جھڑپوں کے نتیجے میں کم از کم 846 افراد ہلاک اور 6000 سے زائد زخمی ہوئے، جبکہ مظاہرین  کے ہاتھوں ملک بھر میں 90 سے زائد پولیس اسٹیشنوں کو جلا کر جوابی کارروائی کی گئی ۔

یہاں ایک بات انتہائی اہم ہے کہ مشرق وسطیٰ کے انقلابات کے حوالے سے امریکی حکومتوں کے جو بیانات آتے رہے تھے ان سے صاف ظاہر تھا کہ امریکہ مشرقی وسطیٰ میں آنے والے انقلاب سے بالکل بھی آگاہ نہیں تھا ، حالانکہ امریکہ مشرقی وسطیٰ کے تمام ممالک کے حالات کو ان ممالک سے بھی زیادہ گہرائی سے جانتا ہے ایسی صورت میں ممکن نہیں کہ امریکہ کو عرب انقلابات کی آہٹ تک محسوس نہ ہوئی  ہو۔

ایک اور اہم نقطے کا یہاں زکر کرنا چاہوں گا کہ پورے مشرق وسطیٰ کے جن ممالک میں حکومتوں کے خلاف بغاوت شروع ہوئی، ان میں کسی بھی ملک میں مغربی ممالک یا امریکا اور اسرائیل کی سازشوں کے حوالے سے کوئی لفظ بھی سننےمیں نہیں آیا۔ ورنہ یہ عام فہم بات ہے کہ مسلمانوں کو جب بھی کوئی اذیت پہنچتی ہے تو اس کے اصل اسباب سے پہلے اس کا الزام یہود و نصاریٰ پر لگا کر بری الذمہ ہوجاتے ہیں ۔

بعض ادانشوروں نے اپنی رائے کا اظہار کرتےہوئے کہا کہ مشرقی وسطیٰ میں رونما ہونے والی غیرمعمولی انقلابی تبدیلیاں سوچا سمجھا منصوبہ نہیں بلکہ طویل عرصے کے جاری ظلم اور جبر کا فطری نتیجہ تھا۔یہ واقعی حیران کن تھا کہ   مشرقی وسطیٰ میں شروع ہونے والے احتجاج  جس مصری باشندوں نے  سب سے بڑا کردار اداکیا اور تیس سالوں سے  جاری حسنی مبارک کی بادشاہت کو  روندھ ڈالا  وہ اخوان المسلمین سے تعلق رکھنے والے  مصر کے پانچویں جمہوری  صدر محمد مرسی کی  حکومت کا تختہ الٹنے  والے جنرل عبدالفتاح السیسی  کی  آمریت پر کیوں خاموش رہے  ایک مرتبہ نہیں بلکہ السیسی دوسری مرتبہ بھی مصر کے صدر منتخب ہوگئے اور انقلاب کی علامت  مصری قوم  خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔

اخوان المسلمین کے رہنما  اور سابق صدر محمد مرسی  کی گرفتاری ،تشدد اور پھر کمرہ عدالت میں  ہلاکت نے بھی مصری قوم کو کسی احتجاج پر نہیں اکسایا  جو نا چاہتے ہوئے بھی کسی اسکرپٹ کا حصہ لگ رہا تھا تاہم  امریکہ کی جانب سے مشرقی وسطیٰ میں دلچسپی ختم ہونے  چین ، روس اور ترکی  کی مشرقی وسطیٰ میں تیز ی سے بڑھتے ہوئے اثررسوخ  نے صورتحال کو تبدیل کردیا ہے  اور اب اخوان المسلمین جو   حکومتی عتاب کا شکار تھی اور جس کے رہنماؤں سمیت ہزاروں   کارکنان ا ب بھی مصری جیلوں میں طویل قیدکاٹ رہے ہیں ایک بار پھر متحرک ہوتی نظر آرہی ہے ۔

مشرقی وسطیٰ کے حالات پر نگاہ رکنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ  مشرق وسطی ٰ کے حالات ں بدل رہے ہیں کیونکہ علاقائی طاقتیں امریکہ کی گرفت سے نکل رہی ہے لیکن دوسری جانب  چین ،روس اور ترکی اپنا اثر ورسوخ قائم کرنے کے لئے غیر معمولی اقدامات کررہے ہیں ۔ امریکہ نے ہمیشہ ہی مشرق وسطیٰ میں سیاسی  اور عسکری  مداخلت ہر سطح پر جاری رکھی ہے  سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے تو  اسرائیل کی حمایت  اور مشرقی وسطیٰ میں  اسرائیل کو سب سے طاقتور بنانے میں کوئی کسر ہی نہیں چھوڑی ،  ڈیل آف دی سینچری   کے حوالے سے تو ہم سب ہی وقف ہے تاہم نئے آنے والے صدر جوبائیڈن کی اسرائیل اور  مشرقی وسطیٰ کی پالیسی واضح طور پر مختلف ہے جوبائیڈن نے اقتدار میں آتے ہیں صدر ٹرمپ  کی جانب سے  متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب کے ساتھ طے پانے والے اربوں ڈالر مالیت کے دفاعی معاہدے منسوخ کردیے ، افغانستان میں بیس سالوں تک ذلیل ہونے کے بعد  فوجی انخلاء کے موقع پر امریکی صدرجو بائیڈن نے واضح کیا ہے کہ مشرق وسطیٰ ان کی انتظامیہ کی خارجہ پالیسی کی ترجیح نہیں رہا  امریکہ خطے کی سرد جنگوں سے الگ ہو رہا ہے جس کا واضح مقصد چین اور روس  کا  مشرقی وسطیٰ سمیت عالمی سطح پر بڑھتے ہوئے اثررسوخ کو روکنا ہوسکتا ہے ۔

امریکہ کی جانب سے  پالیسیز میں واضح    تبدیلی کے بعد سعودی عرب، ایران، ترکی اور مصر جیسی علاقائی طاقتیں  بھی اپنی خارجہ پالیسیوں کو دوبارہ ترتیب دے رہی ہیں اور الگ تھلگ پڑوسیوں کے ساتھ تعلقات بحال کر رہی ہیں۔ یہ بدلتی ہوئی جغرافیائی سیاست مشرق وسطیٰ کو شدید اور حقیقی معنوں میں عالمی مقابلے کا منظر بنا سکتی ہے۔

جاری ہے ۔۔۔۔۔

یہ بلاگ بلاگر کے اپنے خیالات پر مبنی ہے ادارے کا ان کے خیال سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ تحاریر