تاریخی ورثہ تلاش کے نتائج

  • منشیات کی بھوک کراچی کا تاریخی ورثہ نگلنے لگی

    منشیات کی بھوک کراچی کا تاریخی ورثہ نگلنے لگی، نشے  کے عادی افراد نے سریے کے حصول کیلیے کراچی  کی سڑکوں پر نصب آہنی جنگلوں اور فٹ پاتھس کے کنکریٹ سیلب توڑنے کے بعد اب تاریخی مقامات کا رخ کرلیا۔

    نشے کے عادی افراد  نے سریے کے حصول کیلیے کراچی کے تاریخی مقام” پاکستان چوک “  کی چار دیواری کے لیے نصف کنکریٹ کی جالیاں توڑ دیں۔

    یہ بھی پڑھیے

    کراچی کا ورثہ نشانے پر، فریئر ہال کے بعد ایک اور تاریخی عمارت سرنگاتی کو نقصان

    ماروی مظہر نے ڈی ایچ اے فیز 8 کی متنازع زمین پر تعمیرات کا مسئلہ اٹھادیا

    ماہر تعمیرات اور سماجی کارکن ماروی مظہرپاکستان چوک کی متاثرہ چار دیوار کی تصویر  اپنے ٹوئٹر ہینڈل پر شیئر کرتے ہوئے پیپلزپارٹی کی رکن سندھ اسمبلی شرمیلا فاروقی، ڈپٹی کمشنر ضلع جنوبی اور محکمہ ثقافت  سندھ سے معاملے کا نوٹس لینے کا مطالبہ کردیا۔

    ماوری مظہر نے اپنے ٹوئٹ میں لکھا کہ”گزشتہ رات سریے  کےحصول کیلیے  توڑی گئی پاکستان چوک کی چاردیواری دیکھ کر دل ٹوٹ گیا،برائے مہربانی قدیم شہر کی حفاظت کریں“۔

    انہوں نے مزید  لکھا کہ”علاقے کے رہائشی نے مجھے صبح 7 بجے فون کرکے کہاکہ’باجی ایک بالکونی کاتاریخی جنگلہ 35کلووزنی ہے‘، یہ بہت انمول اور خوبصورت  ہے، انہیں دوبارہ کون بنائے گا؟“۔

    انہوں نے سوال اٹھاکہ”پولیس اس قسم کی سرگرمیوں پر چوکنا کیوں نہیں ہوتی؟ کیا یہ انصاف ہے کہ توڑ پھوڑ کے ذریعے تاریخی ورثہ اپنی اہمیت کھوبیٹھیں؟ کیا ڈپٹی کمشنر جنوبی اور محکمہ ثقافت مہربانی کرکے مہارت سے  تیار کردہ قدیم شہر کےآہنی جنگلوں  اورخوبصورت دروازوں کی حفاظت  یقینی بنانے کیلیےکوئی کارروائی کریں گے؟

  • کراچی کا ورثہ نشانے پر، فریئر ہال کے بعد ایک اور تاریخی عمارت سرنگاتی کو نقصان

    محکمہ ثقافت سندھ کی مبینہ غفلت کے باعث کراچی کا تاریخی ورثہ تیزی سے  مٹ رہا ہے۔ تاریخی ورثے میں شامل فریئر ہال کے اطراف سے آہنی جنگلا چوری ہونے  کے بعد کراچی کے پہلے  آرٹ اسکول اور برطانوی کی عمارت سرنگاتی کے دروازے  پر موجود اس کے  نام کے حروف چوری ہوگئے۔

    سندھ سے تعلق رکھنے  والی  سماجی کارکن اور ماہر تعمیرات ماروی مظہر نے اپنے ٹوئٹ میں محکمہ ثقافت سندھ کے شعبہ تعلقات عامہ اور وزیر ثقافت سردار شاہ کو مخاطب کرتے ہوئے اس مسئلے کو اجاگر کیا ہے۔

    یہ بھی پڑھیے

    ماروی مظہر نے ڈی ایچ اے فیز 8 کی متنازع زمین پر تعمیرات کا مسئلہ اٹھادیا

    ماہر تعمیرات ماروی مظہر نے سندھ کے تعلیمی ڈھانچے میں خامیوں کی نشاندہی کردی

    انہوں نے اپنے  ٹوئٹ میں لکھاکہ ”تشویشناک صورتحال ہے،فریئر ہال کا تمام  آہنی جنگلا چوری ہوگیا جس کی مرمت پر ریاست کا پیسہ خرچ ہوتا ہے،اب تاریخی ورثے کی حامل عمارتوں کے نشانات بھی توڑ دیے  گئے ہیں۔

    انہوں نے مزید کہاکہ دنیا بھر میں کہیں بھی یہ نشانات  تاریخی دستاویزات کا حصہ ہوتے ہیں۔انہوں نے بتایا کہ ان نشانات کو تقریباً 80 سال قبل ویلڈ کیاگیا تھا۔ثقافتی ورثے کے نشانات یہ جاننےکیلیے اہم ہوتے  ہیں کہ شہر کی موجودہ ثقات کیا ہے،یہ ہجرتوں، خاندانوں اور بہت سے چیزوں کے درمیان تعلق کا ذریعہ ہوتے ہیں۔

    ماروی مظہر نےکہا کہ مجھے امید ہے ابلاغ اور گرافکس  کی تعلیم دینے والے ادارےآگے آئیں گے اور آگہی کے پروگرامات شروع کریں گے۔انہوں نے بتایا کہ  سرنگاتی قدیم شہر کی ایک بہت ہی خاص مشہور عمارت ہے، اس میں کراچی کا پہلا آرٹ اسکول اور   برٹش لائبریری تھی۔

    ماروی مظہر کے  ٹوئٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے محکمہ ثقافت  سندھ  نے کہاکہ مذکورہ عمارت میں توڑپھوڑ پر اظہار وجوہ کا نوٹس  جاری کردیا  گیا ہے اور مالک کو ہدایت کی گئی ہےکہ غیرقانونی سرگرمیاں روک کر عمارت کی دیکھ بھال کا منصوبہ 29 مئی 2023 تک پیش کیا جائے۔ہماری ٹیم بحالی کے کام میں رہنمائی کرے گی۔

  • بلڈرز مافیا کراچی کی ایک اور تاریخی عمارت نگل گیا

    بلڈرز مافیا کراچی کی ایک اور تاریخی عمارت نگل گیا، معروف  ماہر تعمیرات وورثہ ماروی مظہر نےا نکشاف کیا ہے کہ بلڈرز مافیا نے  کراچی کے سولجر بازار میں واقع تاریخی  عمارت کو منہدم کردیا  ہے۔
    انہوں نے ہیریٹیج ریگولیشنز کی خلاف ورزی پر نظر نہ رکھنے پر محکمہ ثقافت کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔

    یہ بھی پڑھیے

    لینڈ مافیا منظم انداز میں غیر قانونی عمارات کی تعمیر میں ملوث
    کراچی میں قبضہ مافیا سیاسی سرپرستی میں سرگرم

    ماروی مظہر نے ٹویٹر تھریڈ میں لکھاکہ وہ  کچھ عرصے سے  کراچی میں تاریخی ورثے کی توڑ پھوڑ پر خاموش  تھیں لیکن کل انہیں ایک بار پھر کراچی کے مستقبل کے لیے درد محسوس ہوا۔انہوں نے بتایا کہ 2019 میں بلڈرز مافیا کی ایک سرکردہ شخصیت ان کے پاس پاس این او سی مانگنے آئی تاکہ سولجر بازار میں شاہانی اسٹریٹ پرواقع ریلوے کی ملکیتی زمین پر ورثہ قرار دی گئی عمارت کی جگہ وہ نئی  بلند عمارت تعمیر کرسکے جس پر انہوں نے اسے این او سی دینے سے انکار کردیا۔

    demolished heritage building, بلڈرز مافیا

    ماروی مظہر کے مطابق  انہوں نے بلڈر سے کہا اگر وہ تاریخی عمارت کے  احاطے کو  اپنے ڈیزائن میں شامل نہیں کریں گے، تو وہ  این او سی کے لیے  کارروائی شروع نہیں کریں گی ۔انہوں نے مزید لکھا کہ انہیں محکمہ ثقافت پر بھروسہ تھا  کہ وہ اس ورثے  کو ہاتھ سے جانے نہیں دیں گے اور یقین کی بنیاد پر انہوں نے اس عمارت کو دستاویزی تحفظ دینے کیلیے کام شروع کردیا۔

    ماروی مظہر کے مطابق گزشتہ دنوں ایک انہیں بتایا کہ وہ جس عمارت پر 2019 سے کام کررہی تھیں وہ ختم  کردی گئی ہے۔ ایک  سال کے وقفے کے بعد شہر پہلے سے زیادہ ٹوٹا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔ انہوں نے لکھا کہ ورثہ  وہ آخری باب ہے جسے یہ شہر برقرار رکھ سکتا ہے۔ ماہر تعمیرات نے وزیراعلیٰ سندھ اور وزیرثقافت سے معاملے کا نوٹس لینے کا مطالبہ بھی کیا ہے۔

    انہوں نے سندھ کے ہیریٹیج ریگولیشنز کی خلاف ورزی کے خلاف کوئی کارروائی نہ کرنے پر حکام کی سرزنش کی۔ انہوں نے مزید لکھا  کہ ہم نے جو اعتراضات اور متعدد تجاویز پیش کی ہیں وہ اب  بھی خالی برتنوں کی طرح لگتے ہیں۔

    ماروی مظہر نے سولجر بازار میں  منہدم کی گئی تاریخی  عمارت کی جگہ رکھے گئے نئے رہائشی منصوبے  گرینڈ ایلیٹ  کے کنٹینر کی تصویر شیئر کرتے ہوئے سوال کیاکہ  کیا وزیر ثقافت اس  توڑ پھوڑ کا نوٹس لیں گے؟

    ماروی مظہر کے مطابق  جب انہیں ریلوے کوارٹر زمیں واقع اس تاریخی بنگلے تک رسائی ملی تو انہوں نے فوری  طور  پر ایک تحقیق تیار کی جسے ”کراچی میں منگلور ٹائلز کا کیس“کا نام دیا گیا تھا۔انہوں نے لکھا کہ انہیں اس عمارت میں ایسے شواہد ملے تھے جو ناقابل یقین تاریخ کو ظاہر کرتے ہیں۔

    ماروی مظہر نے اکتوبر 2016 کا اپنا مضمون بھی شیئر کیا ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ میک نیل روڈ، ریلوے کوارٹرز، کراچی پر اولڈ ریس کورس گراؤنڈ کے سامنے ایک بنگلے (پلاٹ نمبر FT-2/13) سے سرخ مٹی کی ٹائلیں ملی ہیں۔ماری مظہرنےمزید لکھا کہ  شہروں میں تاریخی عمارتوں کو مٹانے سے تاریخی شواہد اور علم کا بڑا نقصان ہوتا ہے۔ کراچی  میں ورثہ قوانین  پر عمل درآمد کے بجائے ایک لحاظ سے یہ عمل  الٹی سمت میں چلا گیا ہے۔

    انہوں نے وزیراعلیٰ سندھ،ایڈمنسٹریٹر کراچی اورمحکمہ ثقافت کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا کہ تعمیراتی قوانین میں  شہر کی پہچان سمجھی جانے والی نشانیوں کو برقرار رکھنے  کی اجازت ہونی چاہیے  تاکہ  ترقیاتی کاموں  کے باوجود  پرانی تعمیرات شہر کی شناخت میں اپنا  کردار ادا کرسکیں۔

    انہوں نے تاریخی بنگلے کی جگہ کی تصاویر شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ  اس ورثے کو  کو گرا دیا گیا ہے  اور زمین  ہموار ہوچکی ہے اور یوں کراچی کا ایک اور تاریخی بنگلہ ختم ہوگیا۔انہوں نے لکھا کہ ورثہ قوانین اور  ضوابط پر شرم آتی ہے۔

  • سادھو بیلہ کی تاریخی اہمیت

    پاکستان کے صوبہ سندھ کے شہر سکھر میں روہڑی اور سکھر شہر کے عین درمیان میں صدیوں سے قائم سادھو بیلہ کا مقام ہے۔ جس طرح یہ مقام کافی منفرد ہے اسی طرح اس کی تاریخ بھی بہت منفرد اور دلچسپ ہے۔

    اس جزیرے پر انسانی موجودگی کے آثار چار پانچ سو سال قبل ملتے ہیں۔ مسلمانوں نے اسے دین بیلا (یعنی دین کا جنگل) انگریزوں نے اپنی لکڑیوں کے گودام کے لیے اسے نیوی وڈ لینڈ پکارا تو ہندوؤں نے اسے سادھوؤں کی آمد کے باعث سادھو بیلا کہا۔

    بیلا سندھی میں جنگل کو کہتے ہیں۔ اس لیے ہندوؤں اور انگریزوں اور مسلمانوں نے جب بھی اسے کوئی نام دیا تو اس میں بیلا یعنی جنگل کے لفظ کا استعمال ضرور کیا۔

    سادھو بیلہ کا ذکر تاریخ میں پہلی بار 476 سال قبل تب ملتا ہے جب ہمایوں بادشاہ کا چھوٹا بھائی کامران مرزا سندھ میں آیا اور اس کی شادی اس وقت کے سندھ کے حکمران شاہ حسن بن شاہ بیگ ارغون کی بیٹی چوچک بیگم کے ساتھ ہوئی۔ اس کے بعد 1007 ہجری میں میر معصوم شاہ بکھری نے اس خوبصورت جزیرے میں ایک ستیاسر نامی عمارت تعمیر کروائی۔

     کہا جاتا ہے کہ میرے سادھ بیلا کے اندر شروعاتی دور میں پانی کی سطح بلند ہونے کے باعث یہ جزیرہ ڈوب جاتا تھا۔ جس کی وجہ سے کشتیاں جزیرے سے ٹکرا جاتی تھیں اس لئے میر معصوم شاہ نے جزیرے میں کشتیوں اور بیڑوں کی رہنمائی کے لئے ایک گنبد تعمیر کروایا۔ تاکہ گنبد دور سے نظر آئے اور اس جزیرے کی نشاندہی کرے اس طرح کشتیاں اور بیڑے اس جزیرے سے بچ کر اپنا سفر محفوظ طریقے سے جاری رکھ سکیں۔

    سادھو بیلہ

    اس کے بعد 1824 عیسوی میں میر رستم خان نے شکارپور اور بکھر کا علاقہ چھین کر جب اسے خیرپور ریاست میں شامل کیا تو اس جزیرے پر کوئی توجہ نہ دی. اس زمانے میں سادھ بیلا میں کھجور کے درخت اور جنگل آباد تھا انہی ایام میں 1823 عیسوی میں ہندو دھرم کے ایک نیپالی باشندے جو سادھو تھے ان کا نام بن کھنڈی تھا ان کی پیدائش 1762ء میں نیپال میں ہوئی۔

    تقریبا 58 سال کی عمر میں راجستھان سے ہوتے ہوئے روہڑی کے راستے سے اس جزیرے پر پہنچے اور وہیں اپنی پوجا اور گیان کے لیے انہوں نے اس مقام کو موضوع قرار دیا۔ بابا بنکھنڈی مہاراج دریا میں بہہ کر آنے والی لکڑیاں جمع کر کے آگ جلاتے اور دھنویں میں اپنی پرارتھنا اور پوجا پاٹ کرتے۔

     اس وقت خیرپور کے شاہی تخت پر ہندوؤں کا کافی اثر رسوخ تھا۔ ہندوؤں کے اثر رسوخ کی وجہ سے کسی کو مجال نہ تھی کے کوئی بن کھنڈی سادھو کو اس جزیرے سے بے دخل کرتا۔ اور ریاست خیرپور کے والی میر رستم خود بھی درویش صفت انسان تھے جنہوں نے سادھ بیلا آستان پر بسنے والے ہندو سادھوؤں کو کبھی پریشان نہ کیا۔

    سادھو بیلہ

    1838 عیسوی میں انگریزوں نے جب بکھر کے قلعے پر قبضہ کیا تو بن کھنڈی مہاراج کے پتھروں سے بنائے گئے 4 بتوں کو جیسے کا تیسا رہنے دیا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ہندو پوجا پاٹ کے لیے یہاں آتے تھے اور یہ جزیرہ ہندوؤں کا تیرتھ اور عبادت گاہ بنتا جا رہا تھا۔ یہ تیرتھ سادھ بیلا آشرم اور اُداسی آشرم کہلانے لگا۔

    1893 میں سکھر کے ایک تاجر کے بیٹے ہرنام داس نے جب سادھ بیلا میں گدی نشین کے طور پر ذمہ داری سنبھالی تو سادھ بیلا  جزیرے کے عین درمیان ایک عالیشان محل نما عمارت تعمیر کروائی۔ جزیرے کے پرانے مرکزی دروازے کو گرا کر سنگ مرمر کا نیا داخلی دروازہ تعمیر کروایا جس کی دیواروں پر سوارگ یعنی جنت اور نرگ یعنی دوزخ کا حال تصویری خاکوں میں بیان کیا گیا ہے۔

     یاتریوں کی آمد و رفت کے لیے مسجد منزل گاہ کے قریب نیوی وڈ لینڈ  جسے مسلمان دین بیلا پکارتے تھے کو مٹی ڈلوا کر ہموار کیا اور دونوں  حصوں کو ملا دیا گیا۔ کیونکہ اس ملاپ سے قبل سادھ بیلا دو جزیروں پر مشتمل تھا اور دونوں حصوں کے بیچ سے دریا بہتا تھا۔

    اس کے بعد چاروں طرف مضبوط دیوار تعمیر کروا دی گئی۔ جہاں ایک خوبصورت باغ بھی تعمیر کیا گیا۔ سادھ بیلا تیرتھ میں پوجا پاٹ کے اوقات کے اعلان کے لیے ایک بڑا آہنی گھنٹا بھی نصب کیا گیا جس کو ہلانے پر آواز دریا کے چاروں طرف گونجتی اور اندرونی عمارتوں سے ٹکراکر بازگشت پیدا کرتی۔

    سادھو بیلہ

    پاکستان کے قیام کے وقت ہندوؤں کی بڑی تعداد کے ہندوستان منتقل ہونے کے باعث ہرنام داس بھی بمبئی منتقل ہوگئے ان فسادات میں دونوں اطراف سے کافی جانی نقصان ہوا جس کے بعد سادھ بیلا تیرتھ میں وہ رونقیں نہیں رہیں جو کبھی یہاں ہوا کرتی تھیں۔ جس کے بعد اب صرف ہاڑ (جولائی) کے مہینے میں 12، 13 اور 14 تاریخوں پر سالانہ میلہ لگتا ہے جسے بابا بنکھنڈی مہاراج کا میلہ کہتے ہیں۔

    سادھ بیلا تیرتھ کا انتظام اب ہندو پنچائت کمیٹی سنبھالتی ہے تاہم سیاحوں کی آمدورفت سال بھر جاری رہتی ہے جو دنیا بھر سے یہاں اس دریائی جزیرے پر مشتمل خوبصورت مقام کی سیر کو آتے ہیں۔

    تقریباً ہر مذہب کے لوگ سادھ بیلا کے تاریخی مندر کی سیر کو آتے ہیں جو اسقدر قدرتی حُسن سے مزین مقام کی تعریف کے ساتھ ساتھ یہاں محکمہ اوقاف کی غفلت و لاپرواہی پر بھی افسوس کا اظہار کرتے ہیں۔

    کراچی سے آئے ہوئے ایک مسلمان سیاح ابو حمود محمد نے نیوز 360 سے بات کرتے ہوئے کہاکہ پاکستان سیاحت کے حوالے سے کافی مالامال ہے میں نے انٹرنیٹ پر سادھ بیلا کو دیکھا تو یہاں آنے کا فیصلہ کیا۔ سادھ بیلا جیسے قدیم تاریخی ورثے کا اب تک اس حال میں قائم رہنا حیرت انگیز ہے لیکن اس تیرتھ کے منتظمین اور حکومت کی جانب سے سیاحوں کو معلومات کی فراہمی کے حوالے سے گائیڈ مہیا نہ کرنا یقیناً افسوسناک ہے۔

    سادھو بیلہ

    اتنی دور سے آنیوالوں کو ہندو دھرم، سادھ بیلا کی تاریخ اور اسقدر اہم ورثے کے بارے میں بتانے والا کوئی نہیں۔ یہاں کی لائبریری انتہائی خستہ حالت میں ہے۔

    رضوان احمد نامی سیاح نے نیوز 360 سے بات کرتے ہوئے کہا کہ سادھ بیلا میں حکومتی توجہ کی شدید ضرورت ہے یہ ہمارا تاریخی ورثہ ہے اور جب کہ پاکستان میں تمام مذاہب کو مذہبی آزادی بھی حاصل ہے تو ان کے مذہبی مقامات کی دیکھ بھال بھی اتنی ضروری ہے جس پر محکمہ اوقاف فوری طور پر توجہ دے۔

    ایک اور سیاح امداد چنہ نے نیوز 360 سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ”ہندوؤں کی اتنی خوبصورت جگہ اس سے قبل نہیں دیکھی جو دریا کے عین بیچ میں واقع ہو. حکومت کو چاہیے کہ اس طرح کے نایاب قومی ورثے کو نہ صرف محفوظ بنایا جائے بلکہ اس کے فروغ کیلئے بھی ٹھوس اقدامات کئے جائیں۔‘‘

  • ذوالفقار جونیئر کا بحریہ ٹاؤن اور ملیر ایکسپریس وے کی تعمیر فوری روکنے کا مطالبہ

    سابق وزیراعظم اور پیپلزپارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو کے اکلوتے پوتے ذوالفقار جونیئر نے ملیر ندی کے طاس کو بچانے کیلیے بحریہ ٹاؤن کراچی اور ملیری ایکسپریس وے منصوبے کی تعمیر فوری روکنے کامطالبہ کردیا۔

    ذوالفقار جونیئر نے مقامی سماجی کارکنوں کی دعوت پر کاٹھور کا دورہ کیا اور بحریہ ٹاؤن اور ملیر ایکسپریس وے  کی تعمیر کے نتیجے میں ملیری  ندی میں ہونے والی ماحولیاتی تباہی کا جائزہ لیا۔

    یہ بھی پڑھیے

    ذوالفقار جونیئر کا عالمی برادری سے پاکستان کا قرضہ معاف کرنیکا مطالبہ

    عوام سرمایہ داری اور جاگیرداری سے تنگ آچکے، انقلاب آرہا ہے، ذوالفقار جونیئر

    ذوالفقار علی بھٹو جونیئر نے کاٹھور لائبریری میں کی گئی اپنی گفتگو کی وڈیو اپنے ٹوئٹر ہینڈل پر شیئر کی ہے۔ انہوں کہا کہ  ہم ترقیاتی کاموں کےنام پر  اپنا ثقافتی ورثا اور تاریخی ورثا کھورہے ہیں، مگر یہ ترقیاتی کام امیر لوگوں کیلیے کیے جارہےہیں جو بحریہ ٹاؤن میں پلاٹ خریدنا چاہتے ہیں۔

    انہوں نے کہاکہ یہ قبرستان تباہ کررہے ہیں، لوگوں کے گاؤں تباہ کررہے ہیں قدرتی ماحول کو ستیاناس کررہےہیں،یہ پہاڑی سلسلوں کو کاٹ رہےہیں،یہاں ہرن ، پھارن اور جنگلی حیات تباہ ہوگئے ہیں، یہ مکمل تباہی ہے۔

    انہوں نے کہا کہ کراچی میں ملیرندی  پر  پرندوں کی 180 اقسام  بستی ہیں، ہم خوش نصیب ہیں کہ کراچی میں رہنے والےملیر آکر ان پرندوں اور خوبصورت ماحول کا نظارہ کرسکتے ہیں لیکن یہ سب ملیر ایکسپریس وے  کے نام پر بحریہ ٹاؤن کی جانب سے تباہ کیا جارہا ہے،ہمارے حکومتی نمائندے کہاں ہیں؟ہماری وزیر ماحولیات کہاں ہیں؟

    ذوالفقار علی بھٹو جونیئر نےسینیٹر شیری رحمان  کو خاص طور پر مخاطب کرتے ہوئے کہاکہ  آپ نے کئی عالمی فورمز پر مجھے پاکستان میں ماحولیاتی ناانصافیوں کے بارے میں آگاہ کیا ہے،آپ کراچی سے تعلق رکھتی ہیں ، آپ کے اپنےگھر کے پیچھے موسمیاتی ناانصافی جاری ہے اور آپ کاغائب ہوگئی ہیں، لوگ مایوس ہوگئے ہیں کہ جو کچھ عالمی سطح پر کہا جارہا ہے مقامی سطح پر اس پر عمل نہیں کیا جارہا۔

    انہوں نے کہا کہ مجھے امید ہے کہ اس حوالے سے حکومت کو جواب دہ بنایا جائے گا اور مجھے امید ہے کہ بحریہ ٹاؤن اور ملیر ایکسپریس وے کے منصوبوں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچنے سے پہلے بند کیاجائے گا۔

    ذوالفقار جونیئر نے اپنے ٹوئٹ میں لکھاکہ ملک ریاض تم مجرم ہو، زمین پر قبضہ کرنے والا مجرم ، روح کو تباہ کرنے والا مجرم۔

    ذوالفقار جونیئر نے بحریہ ٹاؤن کی زد میں آنے والے تاریخی قبرستان کی وڈیو ٹوئٹ کرتے ہوئے لکھاکہ بحریہ ٹاؤن میں 600 سال پرانی قبریں منہدم کی جارہی ہیں، اس کے علاوہ ملیر کا پورا نکاسی کا نظام  تباہ ہو رہا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ مستقبل میں کراچی میں کم پانی آئے گا۔

    انہوں نے ایک اور ٹوئٹ میں لکھاکہ ملک ریاض تم قبضہ گیر ہو ۔شیری رحمان  ہماری آنکھوں کے سامنے ایک پورا دریائی طاس تباہ ہو رہا ہے۔ آپ  کی توجہ  درکار ہے۔

  • برنس روڈ کراچی کی قدیم عمارتوں پر رنگ و روغن کے خلاف اقدامات

    پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی کے علاقے برنس روڈ فوڈ اسٹریٹ پر قائم پرانی عمارتوں کو رنگ کر کے اُن کی اصل شکل ختم کردی گئی ہے۔ صوبائی وزیر ثقافت، سیاحت و نوادرات سید سردار علی شاہ نے معاملے کا نوٹس لے کر کمیٹی تشکیل دے دی ہے۔

    سندھ کے وزیر ثقافت سردار شاہ کا کہنا ہے کہ کچھ عمارتیں تاریخی ورثہ ہیں جن پر بغیر اجازت رنگ کیا گیا ہے تاہم پرانی عمارتوں پر کیا گیا رنگ ختم کرکے اُن کے اصل رنگ میں واپس لایا جائے گا۔ چند حلقے ڈپٹی کمشنر ساؤتھ کے بارے میں یہ کہہ رہے تھے کہ اِس پورے کام میں اُن کا دفتر بلواسطہ یا بلا واسطہ طور پر ملوث ہے۔

    لیکن ڈپٹی کمشنرساؤتھ ارشاد علی سودھر نے برنس روڈ کے ساتھ ملحقہ ورثے کی عمارتوں پر رنگ و روغن میں اپنے دفتر کے کردار کی تردید کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ کام سول سوسائٹی کے ممبران نے انجام دیا ہے۔ ہم نے معاملے کا نوٹس لے کر کام رکوا دیا ہے۔

    برنس روڈ عمارات

    اس معاملے پرڈائریکٹر جنرل آرکيالوجی منظور احمد کی سربراہی میں کمیٹی تحقیقات کرکے رپورٹ پیش کرے گی۔ ثقافتی ورثے کی بحالی کے لیے کام کرنے والی سرگرم کارکن ماروی مظہر نے معاملے کا نوٹس لینے پر سید سردار شاہ کا شکریہ ادا کیا ہے۔ ٹوئٹرپرجاری پیغام میں انہوں نے قدیم عمارتوں پر کیے گئے رنگ و روغن پرمایوسی کا اظہار کیا ہے۔

    محکمہ ثقافت کا کہنا ہے کہ ضلعی انتظامیہ کو غیر منظورشدہ تزئین وآرائش سے روک دیا گیا ہے کیونکہ یہ سندھ ورثہ تحفظ ایکٹ 1994 کی خلاف ورزی ہے۔ ثقافتی ورثے کا اصل رنگ اور شکل تبدیل نہیں کی جاسکتی ہے۔

    گزشتہ برس دسمبر میں حکومت سندھ نے کراچی کی برنس روڈ فوڈ اسٹریٹ کی تزئین وآرائش کے لیے 10 رکنی کمیٹی تشکیل دی تھی جس کے کنوینئرآرام باغ سب ڈویژن کے اسسٹنٹ کمشنرہیں۔

    حال ہی میں کراچی کی انتظامیہ نے فوڈ اسٹریٹ کے لیے گاڑیوں کا داخلہ ممنوع کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ 5 جنوری کو جاری ہونے والے نوٹیفکیشن میں کہا گیا تھا کہ رات 7 بجے کے بعد برنس روڈ فوڈ اسٹریٹ پر گاڑیوں کو آنے کی اجازت نہیں ہوگی۔

    یہ بھی پڑھیے

    کراچی عمارتوں کا جنگل بن چکا ہے؟

    نوٹیفکیشن کے مطابق 10 جنوری سے مقررہ وقت کے بعد گاڑیاں برنس روڈ پر کھڑی کرنے پر پابندی عائد ہونے کے ساتھ اطراف کے رہائشیوں کو ان کی گاڑیوں کے لیے اسٹیکر جاری کیے جائیں گے۔

    اس کے علاوہ ہنگامی صورتحال میں گاڑیوں کو برنس روڈ کے ایک طرف سفر کرنے کی اجازت ہوگی جبکہ فوڈ اسٹریٹ کے دونوں اطراف ویلے  پارکنگ دستیاب ہوگی۔

    واضح رہے کہ گزشتہ سال انڈیا کے شہر ممبئی میں بھی قدیم عمارتوں کی تزئین وآرائش کا کام کیا گیا تھا۔

    ممبئی میں قدیم ورثے کی بحالی
    Zara

    ممبئی کے ایک صدی سے زیادہ قدیم فلورا فاؤنٹین اور اسماعیل بلڈنگ اس وقت خبروں کی زینت بنے جب انہیں اصلی حالت میں بحال کیا گیا تھا۔

  • چین کی تاریخ میں گندھارا تہذیب پر سب سے بڑی نمائش کا انعقاد

    صدیوں قدیم گندھارا تہذیب پر چین کی تاریخ کی سب سے بڑی نمائش کا افتتاح ہوگیا۔ چین کے وزیر ثقافت وسیاحت جناب ہو ہیپنگ نے پاکستان کے قومی تاریخ وادبی ورثہ ڈویژن کی وفاقی سیکریٹری محترمہ فارینہ مظہر اور چین میں پاکستان کے سفیر معین الحق کے ہمراہ بیجنگ کے تاریخی ’پیلس میوزیم‘ میں نمائش کا افتتاح کیا۔

    تین ماہ جاری رہنے والی اس آرٹ نمائش کا چین اور پاکستان نے مشترکہ طورپر اہتمام کیا ہے۔ نمائش کا عنوان ”شاہراہ ریشم کے ساتھ گندھارا تہذیبی ورثہ“ ہے۔ بیجنگ کے ’پیلس میوزیم‘ اور پاکستان کے ’محکمہ آرکیالوجی اینڈمیوزیمز‘ نے چین میں پاکستانی سفارت خانے کے اشتراک سے اس تاریخی نمائش کا انعقاد کیا ہے جس میں گندھارا تہذیب سے تعلق رکھنے والے 170 نوادرات نمائش میں رکھے گئے ہیں جو پاکستان کے مختلف عجائب گھروں سے اس نمائش کے لئے چین بھجوائے گئے ہیں۔

    یہ بھی پڑھیے

    اسلام آباد: چینی سیاح خواتین نے ہراساں کرنے پر دکاندار کی پٹائی لگادی

    مریم نواز کا پنجاب اسمبلی کے چار حلقوں سے انتخابات میں حصہ  لینے کا فیصلہ

    یاد رہے کہ 2023 کو پاکستان اور چین کے درمیان سیاحت کے شعبے میں روابط اور تبادلوں کے فروغ کے سال کے طور پر منایاجارہا ہے۔ یہ نمائش اسی سلسلے کی کڑی ہے۔

    چین کے وزیر ثقافت وسیاحت جناب ہو ہیپنگ اس موقع پر مہمان خصوصی تھے جبکہ قومی تاریخ و ادبہ ورثہ ڈویژن کی وفاقی سیکریٹری محترمہ فارینہ مظہرنے تقریب میں خاص طور پر شرکت کی۔

    چین میں پاکستان کے سفیر معین الحق نے اپنے خطاب میں نمائش کے کامیاب انعقاد پر تمام منتظمین کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے صدیوں قدیم گندھارا تہذیب اور اس کے پاکستان کا حصہ ہونے کی تاریخی اہمیت پر روشنی ڈالی۔

    انہوں نے کہا کہ پاکستان اور چین کے درمیان استوار ہونے والے ابتدائی روابط میں گندھارا تہذیب کا کردار ہے۔ انہوں نے کہاکہ دونوں ممالک نے اپنا مشترکہ تہذیبی ورثہ اجاگر کرنے کے لئے مل کر یہ قابل قدر کاوش کی ہے۔ تاریخی ورثہ و مقامات کے فروغ کے ساتھ ہمیں ماضی سے جذبہ حاصل کرتے ہوئے ایک روشن مستقبل کی تعمیر کرنی ہے۔

    انہوں نے چینی شرکاء کو پاکستان کے دورے کی دعوت دیتے ہوئے کہا کہ آئیں، گندھارا کے تاریخی مقامات کی سیر کریں، پاکستان کے خوبصورت قدرتی مناظر اور روایات سے لطف اندوز ہوں۔

    قومی تاریخ وادبی ورثہ ڈویژن کی وفاقی سیکریٹری محترمہ فارینہ مظہر نے پاکستان اور چین کی مضبوط و مثالی دوستی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس دوستی کی جڑیں تاریخ میں نہایت گہری ہیں۔

    انہوں نے دونوں ممالک کے درمیان ثقافتی تعاون کے حوالے سے نمائش کو ایک سنگ میل قرار دیتے ہوئے امید ظاہر کی کہ اس نمائش سے نہ صرف عام چینی باشندے بلکہ پروفیشنلز اور محقیقین کی پاکستان کے بارے میں آگاہی میں مزید اضافہ ہوگا۔

    دریں اثناءچین کے وزیر ثقافت نے نمائش کے باضابطہ افتتاح کے بعد دیگر مہمانوں کے ہمراہ نمائش کا دورہ کیا اور وہاں رکھے تاریخی نوادرات کو دیکھا۔

    تقریب میں چین کی حکومت کے اعلی حکام کی بڑی تعداد شریک ہوئی جن میں موجودہ اسسٹنٹ سیکریٹری خارجہ اور پاکستان میں چین کے سابق سفیر نونگ رونگ، پیلس میوزیم کے ڈائریکٹر ڈاکٹر وینگ ژوڈونگ، سفارت کاروں، محقیقین، سیاحت و ثقافت سے تعلق رکھنے والی تنظیموں کے نمائندوں، صحافیوں اور پاکستانی شہریوں نے شرکت کی۔

  • لاہور میں جدید طرز کی قدیم نقوش والی عمارت کراچی کے حکام کے لیے سبق

    صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور اپنی تاریخی عمارتوں اور 12 دروازوں کی وجہ سے دنیا بھر میں مشہور ہے۔ اصل میں یہ 11 دروازے اور ایک موری ہے جو اب اک موریہ پل کے نام سے جانا جاتا ہے۔ روایات کے امین ایک شہری نے شہر کے مشہور شاہ عالم گیٹ پر اپنے گھر کی میں تاریخی طرز تعمیر کی جھلک دے کر دیکھنے والوں کو حیران کردیا ہے۔

    تاریخی روایات کے مطابق جو دروازے اس فہرست میں شامل ہیں ان میں یکی دروازہ، اکبری دروازہ، ٹیکسالی دروازہ، شاہ عالمی دروازہ، بھاٹی گیٹ، کشمیری دروازہ، دہلی گیٹ، مستی گیٹ، لاہوری گیٹ، موچی گیٹ، روشنائی گیٹ اور شیرانوالہ گیٹ ہیں۔

    شاہ عالمی گیٹ یا شاہ عالمی مارکیٹ

    لاہور میں تاریخی طرز تعمیر کے کئی نمونے دیکھنے کو ملتے ہیں۔ شاہ عالمی گیٹ کو لاہور کی تاریخ میں خاص اہمیت حاصل ہے۔ یہ گیٹ مغلیہ خاندان کے آخری شہنشاہ محمد معظم عالم المعروف بہادر شاہ ظفر کے نام پر رکھا گیا تھا۔ 1857 کی جنگ آزادی کے موقع پر اس کو جلا دیا گیا تھا اور اس کا اب نام ہی رہ گیا ہے۔ اس گیٹ کے پاس لاہور کی سب سے بڑی ہول سیل کی مارکیٹ موجود ہے تاہم اس گیٹ کو دوبارہ تعمیر نہیں کیا جا سکا۔

    تاریخی عمارت

    یہ بھی پڑھیے

     تاریخی ورثہ تلاش کے نتائج

    اسی طرح تاریخ روایات کی پاسداری کرتے ہوئے شاہ عالمی گیٹ کے ایک مکین نے بھی اپنے گھر کو اسی تاریخی انداز میں تعمیرکیا کہ جس کی جھلک سابقہ ادوار کی عمارتوں کا عکس صاف دکھائی دیتا ہے۔ دیواروں اور بالکنیوں پر لگائی گئی کھڑکیوں میں زمانہ قدیم کے طرز تعمیر کی جھلک واضح دکھائی دے رہی ہے۔ پلاسٹر آف پیرس اور سیمنٹ سے تیار کردہ آمیزے سے خوبصورت نقش و نگار بنائے گئے ہیں۔

    شہری کا کہنا ہے کہ ثقافتی ورثے اور رنگ و روغن کا کوئی نعم البدل نہیں۔ اردگرد کی عمارتوں میں گھری ہوئی تاریخی ورثے سے مزین عمارت اپنی الگ شان سے کھڑی ہے۔ مختلف قسم کے عجائبات پر نظر رکھنے والے سیاح اور طالب علم دور دور سے اس عمارت کو دیکھنے کے لیے آتے ہیں۔

    کوا چلا ہنس کی چال

    کوا چلا ہنس کی چال اپنی بھی بھول گیا۔ یہ تاریخی محاورہ آج کل کراچی کی برنس روڈ پر کی جانے والے رنگ و روغن پر بالکل فٹ بیٹھتا ہے۔ عمارتوں پر تزئین و آرائش کی آڑ میں تاریخی طرز تعمیر کی اہمیت کو معدوم کیا جارہا ہے۔

    کراچی کا برنس روڈ اپنے لذیذ اور ذائقے دار کھانوں کی وجہ سے پاکستان تو کیا دنیا میں جانا تھا ہے۔ مصالحوں سے تیار بریانی، کراچی حلیم، بکرے کی ران، کٹا کٹ، مرغ کڑاہی، گوشت، چھوٹے اور بڑے کے لذید پائے، صبح کے وقت حلوہ پوری اور لسی کا نشاتہ، پیالہ کھیر اپنی پہچان آپ ہیں۔

    ایسا ممکن نہیں کہ آپ برنس روڈ پر کچھ ڈھونڈیں اور نہ ملے۔ کراچی میں برنس روڈ فوڈ اسٹریٹ دنیا کی مشہور فوڈ اسٹریٹس میں سے ایک ہے۔ برنس روڈ کراچی کی مصروف ترین شاہراہوں میں سے ایک ہے۔ یہاں ریسٹورینٹس سڑک کے کنارے بنے ہوئے ہیں جس کی وجہ سے سڑک پر لوگوں کا رش رہتا ہے۔

    ڈپٹی کمشنر کراچی کی زیرصدارت اجلاس

    گزشتہ سال دسمبر میں شہر قائد کے معروف علاقے برنس روڈ کو ڈپٹی کمشنر ساؤتھ کی زیرصدارت ہونے والے اجلاس میں باقاعدہ فوڈ اسٹریٹ بنانے کا فصلہ کیا گیا۔ اس حوالے سے ڈپٹی کمشنر نے تاجروں کے تعاون سے 9 رکنی کمیٹی تشکیل دی تھی۔

    کمیٹی کو برنس روڈ فوڈ اسٹریٹ کی صفائی اور سیوریج کے مسائل فوری حل کرنے کا ٹاسک دیا گیا۔ اس کے علاوہ فوڈاسٹریٹ میں استعمال ہونے والے فرنیچر اور سائن بورڈز کے ڈیزائن تیار کیے جائیں گے۔ فوڈ اسٹریٹ کے اطراف خوبصورت روشنیوں کا بھی اہتمام کیا جائے گا۔

    برنس روڈ کی نئے سرے کارپیٹنگ کر کے فٹ پاتھ پر فینسی ٹائلز لگا دیئے گئے ہیں۔ حکام کے مطابق شام کے اوقات میں برنس روڈ کی فوڈ اسٹریٹ ہر قسم کی ٹریفک کے لیے بند رہے گی۔ حکام کا کہنا ہے کہ عام ٹریفک کے لیے ملحقہ سڑکوں کا تعین کیا جائے گا تاکہ گاڑیوں کو پارک کیا جاسکے۔

    برنس روڈ کو باقاعدہ فوڈاسٹریٹ بنانے کا فیصلہ

    کراچی میں قسم قسم کے کھانوں کا محور کی پہچان رکھنے والے برنس روڈ پر لذیذ اور ذائقے دار کھانوں کے شوقینوں کا تانتا بندھا رہتا ہے جس کی وجہ اسے شہر کی مصروف ترین فوڈ اسٹریٹ بھی کہا جاسکتا ہے تاہم اب اسے باقاعدہ فوڈ اسٹریٹ کا درجہ دینے کا فیصلہ کرلیا گیا ہے۔

    اہلیان شہر کا مطالبہ

    شہریوں نے حکام بالا کی جانب سے برنس فوڈ اسٹریٹ کی تزئین و آرائش کی جہاں تعریف کی وہیں تاریخ سے جڑے رہنے والے لوگوں کا کہنا ہے کہ جہاں حکومت اتنا پیسہ خرچ کررہی ہے اس کو چاہیے کہ برنس روڈ کے دونوں اطراف پر موجود عمارتوں کو ان کی اصل شکل میں بحال کریں تاکہ یہاں پر آنے والوں کو کھانے کے ساتھ ساتھ اپنی تاریخی عمارتوں کو بھی اصل حالت میں دیکھنے کا موقع ملے۔

  • موہنجو دڑو مشہور امریکی شو کاسموس کا موضوع

    دنیا کے قدیم ترین شہروں میں شمار کیا جانے والا موہنجودڑو پاکستان کے صوبہ سندھ میں واقع ہے جسے مشہور امریکی پروگرام کاسموس میں موضوع بنیا گیا ہے۔ جس کے میزبان معروف ماہر فلکیات نیل ڈی گراس ٹائسن ہیں۔

    موہنجو دڑو سندھی زبان کے الفاظ ہیں جن کے معنی ہیں ‘مُردوں کا ٹیلہ’۔  وادی سندھ کی تہذیب کا ساڑھے 4 ہزار سال قدیم شہر آج بھی محققین کے لیے باعث حیرت ہے۔

    شہر کی باقیات سے نا صرف پرانے شہروں کی بلکہ وادی سندھ کی قدیم تہذیب جیسی قدیم ثقافت کی جدت بھی واضح ہوتی ہے جو 2500 سال قبل از مسیح پرانی ہے۔ یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ یہ ماضی میں بہترین منصوبہ بندی سے بسایا گیا تھا۔ یہاں کی گلیاں ہوں یا نکاسی آب کا نظام ، ہر چیز کا ایک مناسب انتظام دکھائی دیتا ہے ۔ محققین کے مطابق یہ شہر 7 مرتبہ اجڑا اور بسایا گیا۔

    یہ بھی پڑھیے

    کراچی کے بہن بھائیوں کی 1000 سال سے زائد عمریں

    موہنجو دڑو کے ٹیلے تقریبًا ڈھائی سو ایکڑ رقبے پر پھیلے ہوئے ہیں۔ کچھ ٹیلے 20تو کچھ کی بلندی 30فٹ تک ہے ۔ تاہم افسوس کی بات تو یہ ہے کہ یہ عظیم تاریخی ورثہ جس قدر اہمیت کا حقدار ہے پاکستان میں اسے وہ مقام نہیں مل پایا۔

    وکی پیڈیا کے مطابق وادی سندھ کی قدیم تہذیب دیگر قدیم ثقافتوں جیسے قدیم مصر، میسوپوٹیمیا، منوآن اور نورٹے چکو جتنی قدیم تھی۔ بہترینن منصوبہ بندی سے بنائے گئے اِس قدیم شہر کی تاریخ اور اُس کے کھنڈرات میں دفن مہارت نے کاسموس جیسے موقر ٹی وی شو کی توجہ اپنی جانب مبزول کرائی ہے۔

    لیکن پاکستان میں بدقسمتی سے اِس قدیم ورثے کو سیاحتی مقام کا درجہ حاصل نہیں ہو پایا ہے جبکہ عالمی اعتبار سے ایسا ہونا چاہیے تھا۔ حکومت یہاں چھپا قدیم ثقافت کا عکس دنیا بھر کو دکھا سکتی ہے اور تاریخ کے طلباء یہاں آکر تحقیقی کام کرسکتے ہیں مگر آج تک ایسا ممکن نہیں ہوسکا ہے۔

    پاکستان میں اِس کے علاوہ بھی کئی قدیم ثقافتوں کے نشان موجود ہیں لیکن اُنہیں بھی اُن کی قدامت کے لحاظ سے دنیا کے سامنے پیش نہیں کیا جا رہا ہے جس کے وہ مستحق ہیں۔ اگر حکومت معاملے پر توجہ دے تو سیاحت، ارضیات اور آثارِقدیمہ کے شعبوں میں تحقیق و تدریس کی جاسکتی ہے اور اِس میں پاکستان مرکز ثابت ہو سکتا ہے۔

  • محکمہ موسمیات نے سندھ کے بیشتر علاقوں میں بارشوں کی پیشگوئی کردی

    کراچی: محکمہ موسمیات نے صوبہ سندھ کے بیشتر علاقوں میں آئندہ 24 گھنٹوں کے دوران گرج چمک کے ساتھ بارش کی پیش گوئی کی ہے۔

    محکمہ موسمیات کے حکام کے مطابق سکھر، خیرپور، گھوٹکی، لاڑکانہ، میرپورخاص، سانگھڑ، تھرپارکر، عمرکوٹ، کشمور اور ان کے گردونواح میں گرج چمک کے ساتھ بارش متوقع ہے ، تاہم صوبے کے باقی علاقوں میں موسم خشک رہے گا۔

    یہ بھی پڑھیے 

    سندھ کی آبادی 2050 تک 9کروڑ 57 لاکھ تک پہنچ جائے گی

    کراچی کا ورثہ نشانے پر، فریئر ہال کے بعد ایک اور تاریخی عمارت سرنگاتی کو نقصان

    محکمہ موسمیات کے مطابق گذشتہ روز کراچی میں کم سے کم اور زیادہ سے زیادہ درجہ حرارت 36-38 ڈگری سینٹی گریڈ ریکارڈ کیا گیا۔

    حیدرآباد 35-37 ڈگری سینٹی گریڈ؛ سکھر 37-39 ڈگری سینٹی گریڈ؛ ٹھٹھہ 36-38 ڈگری سینٹی گریڈ؛ موہنجوداڑو 36-38 ڈگری سینٹی گریڈ ریکارڈ کیا گیا۔

    جبکہ دادو میں 35-37 ڈگری سینٹی گریڈ؛ مٹھی 39-41 ڈگری سینٹی گریڈ؛ اور نوابشاہ میں 35-37 ڈگری سینٹی گریڈ ریکارڈ گیا۔